بھارت میں گستاخانہ فلم کے خلاف پرامن ردعمل

بھارت میں پر امن مظاہرے

اسلام مخالف فلم کے خلاف بھارت کے مسلمانوں اور سیاسی راہنماؤ ں کی مذمت بھرپور اور واضح ہے اور ان کی جانب سے لوگوں کو دیا جانے والا پیغام بڑا سادہ ہے کہ تشدد سے اجتناب کیا جائے۔
بھارت میں مسلمان راہنماؤں نے متنازعہ ا سلام مخالف فلم پر فوری پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ بھارت میں، جو تعداد کے لحاظ سے دنیا کا تیسرابڑا اسلامی ملک ہے، ردعمل نسبتاً پر امن رہا ہے۔

اسلام مخالف فلم کے خلاف بھارت کے مسلمانوں اور سیاسی راہنماؤ ں کی مذمت بھرپور اور واضح ہے اور ان کی جانب سے لوگوں کو دیا جانے والا پیغام بڑا سادہ ہے کہ تشدد سے اجتناب کیا جائے۔

اسد الدین اویسی جنوبی بھارتی شہر حیدر آباد کے، جہاں مسلمانوں کی کثیر تعداد آباد ہے، رکن پارلیمنٹ ہیں۔ وہ ایک اسلامی سیاسی جماعت آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ بھی ہیں۔

ان کا کہناہے کہ ہم نے اپنی کمیونٹی سے کہاہے کہ ہم نے انہیں بتادیا ہے کہ اس سے ہمارے جذبات مجروع ہوئے ہیں اور ہمیں بہت تکلیف پہنچی ہے۔ لیکن اپنی برہمی اور دکھ کے اظہار کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم جذبات کو خود پر غالب نہ آنے دیں۔ خوش قسمتی سے لوگوں کی اکثریت نے ہمارے علما، اسکالرز اور سیاسی راہنماؤں کے اس پیغام کومان لیاہے۔

پچھلے ہفتے بھارت کے جنوبی شہر چنائے اور مسلم اکثریتی علاقے کشمیر میں پھوٹ پڑے تھے۔ چنائی میں مظاہرین نے امریکی قونصیلٹ میں نصب سیکیورٹی کیمروں کو توڑ پھوڑ دیا تھا اور کشمیر کے مرکزی شہر سری نگر میں پتھراؤ کرنے والے مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں۔ لیکن فلم کے خلاف ہونے والے مظاہرے دوسرے ممالک کے مقابلے میں نسبتاً پرامن تھے۔

بھارت کے مسلمان راہنما اس کاکچھ کریڈٹ اسلام مخالف فلم کے خلاف، جس میں پیغمبر اسلام کی تصحیک کی گئی ہے،حکومت کے فوری ردعمل کو دیتے ہیں۔ بھارت میں گوگل نے جارحانہ مواد پر پابندی کے قانون کے تحت متنازعہ فلم تک رسائی روک دی تھی۔ بھارتی حکومت نے یہ بھی کہاتھا کہ وہ مذہبی عقائد اور جذبات کو مجروع کرنے والے تمام اقدامات کی شدید مذمت کرتی ہے۔

بھارت ایک سیکولر جمہوریت ہے لیکن ماضی کے فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات نے اس ملک کے راہنماؤں کو مذہبی جذبات بھڑکانے والے مواد کے بارے میں بہت چوکس کردیا ہے۔

1988 میں سلمان رشدی کے متنازع ناول Satanic Verses کے ردعمل میں بھارت میں پرتشدد مظاہرے ہوئے تھے اور حکومت نے اس پر فوری پابندی لگادی تھی۔ اس سال کے شروع میں اسلامی تنظیموں نے ایک ادبی تقریب میں سلمان رشدی کے بھارت کی آمدکی مخالفت کی تھی۔
اگرچہ بھارت میں راہنماؤں اور حکومت کے بروقت اقدامات کے نتیجے میں متنازعہ فلم کے خلاف ردعمل کی شدت کم ہوچکی ہے لیکن کئی تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ بھارتی مسلمانوں کے دلوں میں امریکہ مخالف جذبات بہت گہرے ہوچکے ہیں۔

نئی دہلی میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو سٹڈیر کے چیئرمین منصور عالم کہتے ہیں کہ غصہ، دکھ اور نفرت کی آگ بھڑک رہی ہےاور اسے بجھایا نہیں جاسکتا۔ اب مسلمانوں کے ذہنوں میں امریکہ کے خلاف نفرت پھیل رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صرف یہ کہنا کہ آزادی اظہار کے تحت یہ کسی فرد کا ذاتی فعل ہے، کوئی ان الفاظ پر اعتبار نہیں کرتا کیونکہ اظہار کی اس آزادی سے کروڑوں مسلمان کو دکھ پہنچ رہاہے۔


اویسی کو توقع ہے کہ اب تک فلم کے خلاف ردعمل میں جو توازن دکھائی دے رہاہے، اس ہفتے فرانسیسی رسالے میں شائع ہونے والے پیغمبر اسلام کے متنازعہ کارٹونوں سےاسے نقصان نہیں پہنچے گا اورممکنہ طور پر حکومت ان تک بھی رسائی روک دے گی۔

اکثر لوگوں کو امید ہے کہ اس ہندواکثریتی ملک میں جہاں 14 کروڑ افراد پر مشتمل ایک بڑی مسلم اقلیت آباد ہے، حالات پرسکون رہیں گے۔