عراق میں پرتشدد مظاہرے جاری، 46 ہلاک، درجنوں زخمی

بغداد میں مظاہرین نے سڑکوں کو بند کرنے کے لیے جگہ جگہ ٹائر جلا دیے ہیں۔

عراق میں حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جب کہ وزیرِ اعظم عادل عبدالمہدی نے کہا ہے کہ حکومت نے مظاہرین کے مطالبات سُن لیے ہیں۔ لہذٰا اب وہ گھروں کو چلے جائیں۔

دارالحکومت بغداد سمیت ملک کے مختلف شہروں میں کرفیو کے نفاذ کو کڑوی گولی قرار دیتے ہوئے عراقی وزیرِ اعظم نے کہا ہے کہ امن و امان کے پیش نظر شہریوں کو یہ گولی نگلنا پڑے گی۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق، عراقی وزیرِ اعظم کی یقین دہانیوں کے باوجود جمعے کو بغداد میں احتجاج ہوا، جس کے بعد سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کے ایک گروپ پر فائرنگ بھی کی۔

سکیورٹی فورسز اور اسپتال کے ذرائع نے بتایا ہے کہ جمعے کی صبح تک تین روز سے جاری مظاہروں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 46 ہو چکی تھی، جب کہ زیادہ تر ہلاکتیں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ہوئیں۔

عراق کے ایک بااثر دینی رہنما آیت اللہ علی السیستانی نے ایک بیان جاری کیا جسے ان کے نمائندوں کے جمعے کے اجتماعات میں پڑھا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر ہلاکتوں، زخمیوں اور املاک کی تباہی انتہائی دکھ کا مقام ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ حکومت اور سیاست دانوں نے کرپشن کے خلاف لڑنے والے لوگوں کے مطالبات کا کوئی جواب نہیں دیا۔

سیستانی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی ذمہ داری پارلیمنٹ پر عائد ہوتی ہے۔

عراق میں بے روزگاری، بدعنوانی اور ناقص طرز حکمرانی کے خلاف منگل کو حکومت مخالف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ مظاہرین نے دارالحکومت بغداد میں جلاؤ گھیراؤ کیا تھا جس کے بعد یہ سلسلہ دیگر شہروں تک پھیل گیا جب کہ سکیورٹی فورسز سے جھڑپوں کے باعث اب تک 46 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔

عراق کے وزیر اعظم عادل عبدالمہدی۔

پرتشدد ہنگاموں کے بعد عراق کے مختلف علاقوں میں انٹرنیٹ اور دیگر مواصلاتی رابطے بھی معطل کر دیے گئے ہیں۔

جمعے کو سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والے بیان میں وزیرِ اعظم عبدالمہدی کا کہنا تھا کہ حکومت شہریوں سے کھوکھلے وعدے نہیں کرے گی۔ ہم وہ کریں گے جو ہمارے بس میں ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے۔ تاہم، وہ مسائل کے حل کے لیے نئی قانون سازی کریں گے۔

اُن کے بقول، وہ کم آمدنی والے طبقے کو رہائش فراہم کرنے سمیت ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کی کوششیں تیز کر دیں گے۔

وزیرِ اعظم عبدالمہدی کا کہنا تھا کہ کرفیو لگانا ایک مشکل فیصلہ تھا۔ تاہم، وہ کوشش کر رہے ہیں کہ ملک میں نظام زندگی معمول پر آ جائے۔

اطلاعات کے مطابق، مظاہروں میں شریک افراد کی زیادہ تعداد نوجوانوں پر مشتمل ہے جو بے روزگاری، بجلی اور پانی کی بلاتعطل فراہمی کے مطالبات کر رہے ہیں۔

عراق میں حکومت مخالف مظاہروں کا آغاز منگل سے ہوا تھا۔

خیال رہے کہ عراق کا شمار تیل برآمد کرنے والے بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ تاہم، شہریوں کا گلہ ہے کہ بدعنوانی اور دیگر مسائل کے بعد عراق کے عوام کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔

عراق میں احتجاج کا آغاز ایسے وقت میں ہوا ہے جب خطے میں امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی بھی جاری ہے۔ عراق دونوں ممالک کا اتحادی ہے۔ تاہم، یہاں ہزاروں امریکی فوجی بھی تعینات ہیں۔

امریکہ نے 2003 میں عراق پر حملہ کر کے اُس وقت کے صدر صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ امریکی انتظامیہ نے الزام لگایا تھا کہ عراق میں صدر صدام کی حکومت بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تیار کر رہی ہے جس سے دنیا کے امن کو خطرہ ہو سکتا ہے۔