شام: داعش نے سیکڑوں عام شہری اغوا کرلیے

دیر الزور شہر کا ایک منظر

سیرین آبزرویٹری نے دعویٰ کیا ہے کہ دیر الزور پر داعش کے حملے میں کم از کم 135 افراد ہلاک بھی ہوئے ہیں جن میں شہر کے دفاع پر مامور اکثریت شامی فوج کے اہلکاروں کی ہے۔

شام میں شدت پسند تنظیم داعش کے جنگجووں کی جانب سے ملک کے مشرقی علاقے میں کم از کم 400 عام شہریوں کو یرغمال بنانے کی اطلاعات ہیں۔

شام میں تشدد کی صورتِ حال پر نظر رکھنے والے برطانوی ادارے 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' کے مطابق ان افراد کو مشرقی شہر دیر الزور پر حملے کے دوران یرغمال بنایا گیا ہے۔

آبزرویٹری کے مطابق داعش کے جنگجووں نے ہفتے کو دیر الزور کے نواحی علاقے البغالیہ پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرلیا تھا۔

ادارے نے کہا ہے کہ داعش کے حملے میں کم از کم 135 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں اکثریت شامی فوج کے اہلکاروں کی ہے۔

تاہم شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'سانا' نے دعویٰ کیا ہے کہ دیرالزور پر داعش کے حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کم از کم 300 ہے۔

لیکن سرکاری خبر رساں ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں جنگجووں کی جانب سے علاقے کے رہائشیوں کو یرغمال بنانے کا ذکر نہیں کیا ہے۔

آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ جنگجووں نے حملے کے بعد علاقے کے کم از کم 400 رہائشیوں کو اغوا کرلیا ہے جن میں حکومت کے حامی جنگجووں کے اہلِ خانہ بھی شامل ہیں۔

ادارے کے سربراہ سامی عبدالرحمن نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اغوا ہونے والے افراد کی زندگیاں خطرے میں ہیں کیوں کہ داعش کے جنگجو ماضی میں بھی یرغمال بنائے جانے والے افراد کو قتل کرتے رہے ہیں۔

دیر الزور اسی نام کے شامی صوبے کا دارالحکومت ہے جو داعش کے زیرِ قبضہ شام کے شہر رقہ اور پڑوی ملک عراق میں داعش کے زیرِ قبضہ علاقوں کے درمیان واقع ہے۔

داعش نے رقہ کو اپنی "خلافت" کا دارالحکومت قرار دے رکھا ہے جو شام اور عراق میں تنظیم کے زیرِ قبضہ علاقوں پر مشتمل ہے۔

دیر الزور صوبے کا بیشتر علاقہ بھی داعش کے قبضے میں ہے جب کہ شدت پسند تنظیم کے جنگجووں نے گزشتہ سال مارچ سے دیر الزور شہر سمیت شامی حکومت کے زیرِانتظام صوبے کے باقی ماندہ علاقوں پر قبضے کے لیے ان کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔

امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کے محاصرے کے باعث دیر الزور میں خوراک اور بنیادی سہولتوں کی سخت قلت ہے اور شہر کی آبادی مشکل اور غیر یقینی کی صورتِ حال کا سامنا کر رہی ہے۔