ہلاکت خیزی کی علامت۔۔۔ داعش ایک سال کی ہوگئی

فائل

داعش کے شدت پسند گروہ کا ہدف اہل تشیع رہے ہیں، جنھیں وہ ’بدعتی اور مرتد‘ قرار دیتے ہیں؛ جب کہ وہ مصر کےقبطی مسیحیوں، شام کے دروز اور عراق کے یزیدیوں کو ہلاک کرتے رہے ہیں

دولت اسلامیہ کے شدت پسند گروہ کے سربراہ، ابو بکر البغدادی نے ایک سال قبل مشرقی شام اور شمال مغربی عراقی خطے پر محیط اسلامی خلافت قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پیر کو ایک برس مکمل ہونے پر یہ خطہٴزمین پر ہلاکت خیزی کی علامت بن چکا ہے، جس پر انتہاپسندی کے انسداد کے لیے قائم بین الاقوامی کوششوں کا دھیان مرکوز ہے۔

اس بیان میں اُنھوں نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ اِن جذبات کی حمایت کریں، جو سنی مسلک کے ماننے والوں کےترجمان بتائے گئے۔ تب سے متعدد یرغمالیوں کے سر قلم کیے گئے، خودکش بم حملے ہوئے، عراقی اور شامی فوجیوں سے لڑائی کی گئی۔ اُس نے بیرون ملک ہونے والے دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے، جب کہ ہزاروں غیرملکی اُن کے آلہ کار بننے کے نعرے پر متوجہ ہوئے۔

یہ بات ’وائس آف امریکہ‘ کے نمائندے، کِرس ہناس نے اپنی ایک رپورٹ میں بتائی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ داعش نے شام میں جاری خانہ جنگی اور عراق کے سیاسی خلفشار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، علاقے کے اہم ترین شہروں پر قبضہ جمایا ہے، جن میں سے شام میں اس گروہ کا خودساختہ دارالحکومت، رقعہ کے علاوہ، ساتھ ہی ساتھ عراق میں موصل، رمادی اور فلوجہ کے شہر شامل ہیں۔

شام مین گھس جانے کے نتیجے میں، چار برسوں سے جاری حکومتی افواج اور کئی ایک باغی گروہوں کے درمیان جاری لڑائی مزید پیچیدہ ہوچکی ہے، جس سے فوج، شدت پسندوں اور باغیوں نے نئے محاذ کھول رکھے ہیں، جو سارے ایک ہی خطے پر نظریں جمائے ہوئے ہیں، ایسے میں جب ہلاک شدگان کی تعداد 200000 سے تجاوز کر چکی ہے اور لاکھوں لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگ نکلے ہیں۔

عراق میں تشدد کی کارروائیاں تیز ہوگئی ہیں، جب کہ گذشتہ سال مئی سے جون تک سکیورٹی فورسز کی ہلاکتیں 350 تک پہنچ گئی تھیں۔ مجموعی طور پر عراق سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد، 2014ء کا سال ہلاکت خیز ثابت ہوا، اور اس سال ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوچکی ہیں۔

اس سے نبردآزما ہونے کے لیے، امریکہ نے ملکوں کا ایک وسیع تر اتحاد تشکیل دے کر داعش کے خلاف فضائی کارروائیوں کا آغاز کیا، جو اگست میں عراق میں شروع ہوئیں اور بعدازاں شام تک پھیل گئیں۔ پینٹاگان کے اعداد کے مطابق، 10 ماہ کے دوران، اتحادی لڑاکا طیاروں نےمجموعی طور پر 4800 فضائی حملے کیے۔ اِن مشنز کے بارے میں عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اِن کی مدد سے عراقی فوجیوں اور شام کے لڑاکوں نے شدت پسندوں سے کچھ علاقہ بازیاب کرا لیا ہے۔

تاہم، محدود نوعیت کی پیش رفت سامنے آئی ہے، جب کہ عراقی فوج اہم شمالی اور مغربی شہروں میں علاقہ بازیاب کرانے میں کوئی بڑی کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اِن کارروائیوں میں، اُنھیں ایرانی پشت پناہی والی ملیشیاؤں اور کرد عسکریت پسندوں کی حمایت حاصل ہے، مثلاً صوبہٴانبار میں کی جانے والی کوششوں کے حوالے سے۔ اب تک، صدر براک اوباما نے اِن مطالبات کی مزاحمت کی ہے جن میں کہا گیا ہے کہ عراق میں امریکی بَری فوج تعینات کی جائے۔ برعکس اس کے، عراقی فوج کو تقویت پہنچانے کی خاطر، مشیران اور تربیت کاروں کو تعینات کیا ہے۔

داعش کے شدت پسند گروہ کا نظریاتی طور پر دھیان اہل تشیع کو نشانہ بنانا رہا ہے، جنھیں وہ بدعتی اور مرتد قرار دیتے ہیں، جب کہ وہ مصر کےقبطی مسیحیوں، شام کے دروز اور عراق کے یزیدیوں کو بھی ہلاک کر رہے ہیں۔

جن دہشت گرد حملوں کی اُنھوں نے ذمہ داری قبول کی ہے، اُن میں گذشتہ ہفتے تیونس اور مصر میں ہونے والے حملوں کے علاوہ یمن اور سعودی عرب کے حملے شامل ہیں۔

یہاں تک عراق اور شام میں آثار قدیمہ، مزاروں اور ثقافتی نوادرات کو نشانہ بنایا گیا، جب کہ شدت پسندوں نے شہروں اور قصبوں پر دھاوا بولا اور اُنھیں تباہ کیا۔۔ جنھیں وہ گستاخانہ اور بے حرمتی کا باعث خیال کرتے ہیں۔