عراق: دولتِ اسلامیہ کے مخالف سنی قبیلے پر حملے، 85 افراد ہلاک

فائل

حالیہ چند روز کے دوران دولتِ اسلامیہ کے ہاتھوں مارے جانے والے قبیلہ البونمر کے افراد کی تعداد 300 سے تجاوز کرگئی ہے۔

شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ نے اپنے ایک مخالف عراقی قبیلے کے مزید 85 افراد کو قتل کردیا ہے۔

سنی قبیلے 'البونمر' کے سربراہ شیخ نعیم الغود نے خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ شدت پسندوں نے جمعے کو صوبہ الانبار میں ان کے قبیلے کے 50 افراد کو اس وقت قتل کردیا جب وہ اپنے قصبے سے محفوظ مقامات کی جانب سفر کر رہے تھے۔

قبائلی سردار کے بقول تمام افراد ایک صحرائی علاقے سے گزر رہے تھے جب وہ شدت پسندوں کے ہتھے چڑھ گئے۔ انہوں نے بتایا کہ قافلے کا ایک شخص زندہ بچ نکلنے میں کامیاب رہا جس نے بعد ازاں قبائلی سرداروں اور حکام تک واقعے کی تفصیلات پہنچائیں۔

نعیم الغود نے بتایا کہ مرنے والوں میں 40 مرد، چھ خواتین اور چار بچے شامل ہیں۔ الانبار کی صوبائی حکومت کے سکیورٹی امور کے نگران فلح العیساوی نے بھی واقعے کی تصدیق کی ہے۔

نعیم الغود اور سکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ حالیہ چند روز کے دوران دولتِ اسلامیہ کے ہاتھوں مارے جانے والے قبیلہ البونمر کے افراد کی تعداد 300 سے تجاوز کرگئی ہے۔

دریں اثنا سکیورٹی فورسز نے عراقی شہر رمادی کے نواح سے ایک اجتماعی قبر سے 35 لاشیں برآمد کی ہیں جنہیں حکام کے مطابق مبینہ طور پر دولتِ اسلامیہ کے جنگجووں نے قتل کرنے کے بعد دفن کردیا تھا۔

حکام کا کہنا ہے کہ مرنے والوں کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے جب کہ ان کی آنکھوں پر بھی پٹیاں باندھی گئی تھیں۔

حکام کے مطابق شبہ ہے کہ مرنے والے افراد کا تعلق قبیلہ البونمر سے ہے۔

قبیلے کے سیکڑوں مسلح افراد گزشتہ کئی ہفتوں سے صوبہ الانبار میں اپنے آبائی قصبے کا دفاع کر رہے تھے جس پر قبضے کے لیے دولتِ اسلامیہ کے جنگجووں کی کارروائیاں جاری تھیں۔

تاہم اسلحہ اور گولہ بارود ختم ہونے کے بعد قبائلی جنگجووں نے پسپائی اختیار کرلی تھی اور قبیلے کے سیکڑوں افراد نے قصبے سے محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہونا شروع کردیا تھا۔

حکام کا کہنا ہے کہ قصبے سے نکلنے والے کئی افراد کو دولتِ اسلامیہ کے جنگجووں نے گرفتار کرنے کے بعد گولیاں مار کر قتل کردیا ہے اور لاشیں اجتماعی قبروں میں دفنادی ہیں۔

قبیلہ کے سربراہ نعیم الغود نے 'رائٹرز' سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ انہوں نے شدت پسندوں سے جھڑپوں کے دوران عراقی حکومت سے کئی بار فوجی مدد اور اسلحے کی فراہمی کی درخواست کی تھی جس کا کوئی جواب نہیں ملا۔