داعش کے جنگجو تاریخی شہر ںمرود تباہ کر رہے ہیں: عراقی حکام

(فائل فوٹو)

دریائے دجلہ کے کنارے یہ شہر 1250 قبل مسیح میں آباد ہوا تھا اور تقریباً چار سو سال کے بعد یہ اشوریہ سلطنت کا دارالحکومت بنا۔

عراق میں حکومتی عہدیداروں نے بتایا ہے کہ شدت پسند گروپ "داعش" کے جنگجوؤں نے تقریباً تین ہزار سے زائد برس پرانے شہر نمرود کی باقیات میں لوٹ مار کر کے اسے تباہ کرنا شروع کر دیا ہے۔

دریائے دجلہ کے کنارے یہ شہر 1250 قبل مسیح میں آباد ہوا تھا اور تقریباً چار سو سال کے بعد یہ اشوریہ سلطنت کا دارالحکومت بنا۔ اُس وقت یہ سلطنت کرہ ارض کی طاقتور ترین ریاست تصور ہوتی تھی جس کی عملداری میں آنے والے علاقوں میں موجودہ دور کے مصر، ترکی اور ایران کے علاقے شامل ہیں۔

عراق کی وزارت سیاحت اور آثارقدیمہ کے مطابق داعش کے شدت پسند "دنیا کی مرضی اور انسانیت کے احساس کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔"

"اپنی تازہ کارروائیوں میں انھوں نے قدیم شہر نمرود کی باقیات کو بھاری مشینری اور بلڈوزر کے ساتھ تباہ کرنا شروع کیا ہے۔"

ان باقیات کا شمار دنیا کے اہم تاریخی ورثوں میں ہوتا ہے۔ یہاں سے بیشتر نوادرات کو برسوں پہلے ہی منتقل کر دیا گیا تھا جن میں "ونگڈ بلز" بھی شامل ہیں جو اب برطانیہ کے لندن میوزیم میں موجود ہیں۔ سینکڑوں قیمتی پتھر اور سونے کے ٹکڑوں کو بغداد کے عجائب گھر منتقل کر دیا گیا تھا۔

اس شہر کے کھنڈرات کی دریافت میں انیسویں صدی میں متعدد برطانوی ماہرین نے حصہ لیا۔ ماہر آثار قدیمہ میکس مالووان اور ان کی اہلیہ اور مشہور مصنفہ آگاتھا کرسٹی بھی 1950ء کی دہائی میں یہاں کچھ عرصے تک کام کرتے رہے ہیں۔

داعش کے شدت پسندوں نے نمرود کے قریب واقع شہر موصل پر گزشتہ سال جون میں قبضہ کیا تھا جس کے بعد انھوں نے پیش قدمی کرتے ہوئے شام کے بھی متعدد علاقوں پر اپنا تسلط جما لیا۔

انتہا پسند مذہبی رجحان رکھنے والے سنی فرقے کے یہ شدت پسند قدیم تہذیبوں میں پائے جانے والے مجسموں کو اسلام کے منافی قرار دیتے ہوئے تباہ و برباد کرتے آرہے ہیں۔

خبر رساں ایجنسی "رائٹرز" نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ شدت پسند نمرود کے کھنڈرات کے مقام پر پہنچے اور وہاں سے تاریخی چیزوں کو لوٹا اور کھنڈرات کو زمین بوس کرنا شروع کر دیا۔

"یہاں پہلے مجسمے تھے دیواریں تھیں ایک قلعہ کی باقیات بھی تھیں جو داعش نے مکمل طور پر ملیا میٹ کر دی ہیں۔"