موت سے مقابلہ کرنےوالے 'ماہی گیر'

ساحلی کناروں پر بسنےوالے افراد ماہی گیری کے پیشے سے وابستہ ہیں، اور یوں سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر، فروخت کرکے روزی روٹی کماتے ہیں۔ لیکن، اُن کی بہتری کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں کیا جاتا
اگر یہ کہا جائے تو غلط نا ہوگا کہ کراچی کی تاریخ بھی اتنی پرانی ہے جتنا یہاں کا ساحل۔

ایک زمانے میں کراچی دنیا میں مچھیروں کی بستی کے نام سے مشہور تھا۔ تقسیم سے قبل اور تقسیم کے بعد کراچی ساحل ہمیشہ سے ہی انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے۔


ساحلی کناروں پر بسنےوالے افراد ماہی گیری کے پیشے سے وابستہ ہیں اور یوں سمندر سے مچھلیاں پکڑ کر، فروخت کرکے روزی روٹی کماتے ہیں۔

کراچی اپنے ساحل سے یومیہ لاکھوں روپے کا کاروبار کر رہا ہے، جہاں ہر نیا دن معاشی لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے اس معاشی مرکز سے روزانہ لاکھوں ٹن مچھلیاں بیرون ملک درآمد کرکے زر مبادلہ کماتا ہے؛ جب کہ ساتھ ہی، اندرون ملک کی ضروریات بھی پوری کرتا ہے۔

کراچی فش ہاربر

مگر معیشت کی اس پھلتے پھولتے کاروبار کے برعکس تصویر کا دوسرا اور تاریک پہلو اس ساحل کے 'ماہی گیر' یعنی 'مچھیرے' ہیں جو ساحل سمندر کی موجوں میں موت سے مقابلہ کرکے مچھلیاں پکڑ کر لاتے ہیں۔

اپنی ان بیش بہا خدمات کے عوض، یہ ماہی گیر سمندر کی موجوں میں ایک سے دو دن سے لیکر اکثر اوقات مہینہ مہینہ بھر گزارتے ہیں؛ مگر بدلے میں ان کو 'چند سو روپوں' کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔

ان کے مسائل کے بارے میں بات کرنے کیلئے نمائندے نے کراچی فشریز کا رخ کیا جہاں موجود ایک نوجوان ماہی گیر،جو کئی روز سے سمندر میں تھا، بتایا کہ "ہم سمندر میں موت سے مقابلہ کرتے ہیں۔ مہینہ مہینہ سمندر میں گزار دیتے ہیں۔ مگر ہماری محنت سے پکڑی ہوئی مچھلیوں کا مناسب منافع نہیں مل پاتا"۔

سمندر میں رہ کر ہمیں اکثر بھارت پاکستان کی آبی سرحد پر بھارتی بحریہ کی جانب سے گرفتاری کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔ اس خوف کی وجہ بعض مرتبہ خالی ہاتھ بھی لوٹنا پڑتا ہے۔

کراچی فشریز کے ایک اور ماہی گیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ :"صبح فجر سے پہلے سمندر میں جاتے ہیں شام گئے تک لوٹتے ہیں‘‘۔

جب ماہی گیر سمندر میں جاتے ہیں تو اُنھیں کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، ان کا کہنا ہے کہ ہم پورے دن کی محنت کی پکڑی ہوئی مچھلیاں ہماری محنت کے اعتبار سے دام میں نہیں فروخت ہوتیں،

کراچی کے ساحلوں سے مچھلیاں پکڑ کر روزگار حاصل کرنےوالے ماہیگیروں کو کئی مسائل درپیش ہیں

اسکا مزید کہنا تھا کہ "بیوپاری ان مچھلیوں کو بازار میں مہنگےداموں تو فروخت کرتے ہیں، مگر ہمیں چند روپے ہی ملتے ہیں۔ جس سے گھریلو خرچے اٹھانا بہت مشکل ہوتا ہے'

چھوٹے کشتی والے ایک ماہی گیر نے بتایا کہ مچھلی اتارنے اور کام کیلئے کوئی ایک خاص جگہ مخصوص نہیں، جس سے بہت مشکلات واقع ہوتی ہیں۔


ان کا مزید کہنا تھا کہ "ماہی گیری بھی ایک ہوائی روزی ہے جسمیں روزانہ کا کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ کبھی 500 کبھی 200 اور کبھی ایک بھی مچھلی ہاتھ نا آنے سے ایک روپیہ بھی کمائی نہیں ہوتی"۔

کراچی فشریز کے ایک بزرگ ماہی گیر، غلام علی بلوچ نے بتایا کہ میں نے اپنے دور میں پاکستان کا قیام دیکھا ہے۔ بقول اُن کے، جب ہندوستان تقسیم نہیں ہوا تھا، ماہی گیروں کے حالات بہتر ہوا کرتے تھے۔

ساحل کنارے کھڑی بڑی کشتیاں بھی ماہی گیروں کیلئے کئی مسائل کا باعث بنتی ہیں

مگر قیام پاکستان کے بعد ماہی گیروں کا کوئی پرسان حال نہیں رہا۔ ’میرے سامنے ہی پاکستان فشریز بنی ہے۔ ہر دفعہ نئے افسران آتے ہیں مگر ماہی گیروں کے مسائل کا حل کوئی نہیں کرتا‘۔

ماہیگیروں کا کہنا ہے کہ جب کوئی ماہی گیر مر جائے تو اسے کفن دفن دینےوالا تک نہیں ہوتا؛ اور جب بیمار ہو تو کوئی نہیں پوچھتا۔ کوئی علاج معالجہ کو بھی نہیں پوچھتا"۔

فشریز کوآپریٹیو سوسائٹی کے چیئرمین نثار مورائی نے وائس آف امریکہ سے ماہی گیروں کے مسائل پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پچھلے دور حکومتوں میں بھی لوگوں نے ان کے مسائل کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے

چیئرمین فشرمین کوآپریٹیو نثار مورائی وائس اف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے

​۔​

ان افراد نے اپنی زمینیں بنالیں۔ مگر ان غریب ماہیگیروں کیلئے گھر نہیں بنائے۔

نثار مورائی کا مزید کہنا تھا کہ وہ اپنے بل بوتے پرماہی گیروں کے مسائل کے حل کیلئے کوششیں کر رہے ہیں، ماہی گیروں کے بنیادی مسائل جسمیں تعلیم، صحت، بچوں کی شادیوں کا مسئلہ بوڑھے ماہی گیروں کی کفالت کیلئے ماہانہ وظیفے فراہم کرنے کی کوشیشیں کی جا رہی ہیں، جبکہ بڑے پیمانے کے مسائل کو حل کرنے کیلئے سسٹم کی خرابیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے جسکے کیلئے ہم کوشاں ہیں"۔