صدیوں پرانے کھسوں پر چڑھا نیا رنگ

تاجروں کے مطابق بعض لوگ چاندی یا سونے کی تار والا کُھسہ آرڈر پر بنواتے ہیں جس کی قیمت 25 سے 60 ہزار روپے تک ہوتی ہے۔

یہاں فروخت ہونے والے کُھسے کی قیمت 600 روپے سے شروع کر ہزاروں روپے تک جاتی ہے۔

مقامی دکان داروں کا کہنا ہے کہ سونے یا چاندی کے تاروں والا کھسہ بہاولپور میں نواب خاندان میں استعمال ہوتا رہا ہے۔

یہ مارکیٹ وقت کے ساتھ اپنے کام میں تبدیلیاں لائی ہے۔

شرقپوری کُھسہ اپنے نفیس کام اور ہاتھ کی کڑھائی کے باعث 1200 روپے سے شروع ہو کر 15 ہزار روپے میں بھی فروخت ہوتا ہے۔

بچوں کے مُختلف ڈیزائن کے رنگ برنگے کُھسے کی مانگ بھی زیادہ ہے۔

اسی شیخوپوریاں بازار میں ایک پُرانی عمارت پاکستان کے قدیم سنیما گھروں میں سے ایک ہے جسے پاکستان ٹاکیز بھی کہا جاتا ہے۔ البتہ اب یہ سنیما بند پڑا ہے۔

یہاں خواتین میں مقبول کولہاپوری چپل بھی مُختلف ڈیزائن میں دستیاب ہے۔

لیدر، تلے، کڑھائی، نقشی، دبکی کے کام والے کُھسے یہاں کی پہچان ہیں۔

گاہک اپنے لباس کا کپڑا دُکاندار کو دے کر اپنی پسند کے جوتے تیار کراتے ہیں جو تین سے چار گھنٹوں کے مختصر وقت میں بنوانے کی آپشن بھی موجود ہے۔

تاجر کہتے ہیں کہ بیرون ملک سے آنے والے اگر ایک بار یہاں سے کھسہ لے جائیں تو دوبارہ فون پر آرڈر دے کر ضرور منگواتے ہیں۔

ٹیکسالی دروازے سے شیخوپوریاں بازار میں داخل ہوں تو تاجر کُھسے کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

بعض تاجر وبا میں بندشوں میں کاروبار متاثر ہونے کا بھی شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔

یہاں کے تاجر طارق یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں کہ بھارتی اداکار نوجوت سنگھ سدھو بھی اُن کے گاہک رہے ہیں۔

یوں تو سال کے 12 ماہ ہی کھسوں کی فروخت جاری رہتی ہے البتہ اس کی فروخت میں تیزی شادیوں کے سیزن ,مذہبی تہواروں اور سکھ برادری کی آمد پر ہوتی ہے۔

نوجوان نسل کا مزاج بھانپتے ہوئے یہاں کپڑوں کے ساتھ میچنگ کُھسے بھی تیار کیے جاتے ہیں۔

کئی تاجر خاص طور پر دیگر شہروں سے کھسے منگواتے ہیں۔