شام: کوبانی میں قتلِ عام کا خدشہ، دنیا سے مدد کی اپیل

کوبانی

’اب یہ کچھ ہی دیر کا معاملہ ہے، جب داعش کے شدت پسند شہر میں داخل ہوجائیں گے اور لوگوں کا بڑے پیمانے پر قتلِ عام ہوگا۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ امریکہ اور اتحادی افواج دولت اسلامیہ سے ٹکرائیں، قبل اِس کے بہت تاخیر ہو چکی ہو‘

شمالی شام کے محصور قصبے، کوبانی کے دفاع پر مامور سربراہ نے کہا ہے کہ اگر بروقت بین الاقوامی امداد میسر نہ آئی تو دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں کی طرف سے ’بڑے پیمانے پر قتلِ عام‘ کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔

وائس آف امریکہ کی کُرد سروس سے ایک خصوصی انٹرویو میں، عصمت شیخ حسن نے کہا کہ کُرد جنگجو امریکی قیادت میں لڑنے والی اتحادی افواج کے خالی کردہ علاقوں کا دفاع کر رہے ہیں، ایسے میں جب حالیہ دِنوں کے دوران قریبی علاقوں میں فضائی کارروائیاں کی گئی ہیں۔

حسن کے بقول، ’اب یہ کچھ ہی دیر کا معاملہ ہے، جب داعش کے شدت پسند شہر میں داخل ہوجائیں گے اور لوگوں کا بڑے پیمانے پر قتلِ عام ہوگا۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ امریکہ اور اتحادی افواج دولت اسلامیہ سے ٹکرائیں، قبل اِس کے بہت تاخیر ہو چکی ہو‘۔

عصمت شیخ حسن، کوبانی کے دفاع کی نگرانی کر رہے ہیں، جسے ’عین العرب ‘کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔

اتحادی فورسز کی طرف سے فضائی کارروائیاں، جس میں عراقی حمایت بھی شامل ہے، کرد جنگجوؤں نے گذشتہ ہفتے داعش کے عراقی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا،اور یوں، رابعہ سرحد پر قبضہ خالی کرا لیا گیا، جو شامی سرحد سے ملحقہ خطہ ہے۔

امریکی محکمہٴخارجہ نے جمعرات کو اعلان کیا کہ دولت اسلامیہ کے انسداد کے لیےتشکیل دیے جانے والے اتحاد کے امریکی ایلچی، جنرل جان ایلن عراق پہنچ چکے ہیں، جہاں وہ سرکاری اہل کاروں سے ملاقات کریں گے، جس دوران داعش سے نمٹنے کے لیے جاری کارروائیاں زیر غور آئیں گی۔

عراق کے بعد، ایلن بیلجئم، اردن، مصر اور ترکی جائیں گے، ایسے میں جب امریکہ نے عراق اور شام میں فضائی کارروائی کی حمایت کے حصول کے لیے کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔