کیا انفرادیت پسند معاشروں میں میڈیٹیشن ، انسان کو خود غرض بنا سکتی ہے؟

مراقبہ

چاپانی شیف یوشی ہیرو موراتا دنیا میں جہاں بھی جائیں اپنے ملک کا پانی ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جاپانی پکوانوں کی تیاری میں استعمال ہونے والی ذائقہ دار یخنی 'داشی' اگر جاپان کے پانی میں تیار نا ہو تو پھر وہ بات نہیں رہتی۔ ان کی یہ بات وزن رکھتی ہے۔

سائنسی تحقیق کے مطابق، جاپانی پانی میں چونکہ کم معدنیات ہوتی ہیں اس لئے یہ پانی نسبتاً ہلکا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ دنیا بھر میں جاپانی کھانوں کے دلدادہ افراد جو کھانا خالص جاپانی سمجھ کے کھاتے ہیں وہ اتنا جاپانی بھی نہیں ہوتا۔

کھانوں سے ہٹ کر ایک اور مثال لیتے ہیں۔ لفظ 'نمستے' ہندی زبان میں سلام و آداب کے زمرے میں ایک خیر مقدمی لفظ ہے، جیسے کے انگریزی میں لفظ 'ہیلو' یا اردو میں 'آداب' ۔ مگر آپ امریکہ میں کسی یوگا سینٹر جائیں وہاں آنے والے بیشتر افراد کے نزدیک یہ لفظ روحانی معنی اور حیثیت رکھتا ہے۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر کسی چیز کو اس کے ثقافتی سیاق و سباق سے نکال دیا جائے تو وہ اپنے معنی کھو دیتی ہے۔

یو نیورسٹی ایٹ بفلو کے نفسیاتی سائنسدان مائیکل جے پولین نے ایسوسی ایٹڈ پریس کے لئے اپنے ایک مضمون میں اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایک ثقافتی عمل 'مائنڈفل نیس' یعنی حاضر باشی کی مشق کا ہے۔ سادہ زبان میں اسے سمجھنا چاہیں تو ہم اسے ذہنی بیداری بھی کہہ سکتے ہیں۔

انسانی ذہن حال کے ساتھ ساتھ ماضی اور مستقبل میں بھی سفر کرتا ہے اور اکثر بیتے ہوئے واقعات یا مستقبل کی فکر اسے غیر یقینی اور مایوسی میں دھکیل دیتی ہے۔

'مائنڈ فل نیس' جسے ہم میڈیٹیشن یا مراقبہ بھی کہ سکتے ہیں، ایک ایسی مشق ہے جو انسان کو ماضی اور مستقبل کی پریشانیوں کو قبول کرتے ہوئے اپنے حال کو محسوس کرنے اور موجودہ لمحے میں جینا سکھاتی ہے۔

تحقیق یہ تو بتاتی ہے کہ 'مائنڈ فل نیس' کی مشق سے انسان اپنے ارد گرد کے ماحول کو کھلی آنکھوں اور ذہن سے دیکھنا اور محسوس کرنا شروع کر دیتا ہے اور اسے ذہنی الجھنوں، اضطراب اور ڈپریشن جیسے مسائل پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے؛ مگر اس سے معاشرے، کام کرنے کی جگہوں اور کمیونیٹیز پر کیا اثر پڑتا ہے اس بارے میں تحقیق نا ہونے کے برابر ہے۔

تاہم، یونیورسٹی ایٹ بفلوکے، مائیکل جے پولین کو 'مائنڈ فل نیس' کے سماجی پہلوؤں میں بھی دلچسپی پیدا ہوئی اور انہوں نے اسے گہرائی سے جانچنا شروع کیا۔

Mindfulness in Schools

گھی اور ہلدی کی گولیوں کی طرح گزشتہ چند برسوں میں مائنڈفل نیس اور میڈیٹیشن کا کاروبار امریکا میں باقاعدہ ایک صنعت کا درجہ پا چکا ہے۔ اس وقت یہ کاروبار ایک اعشاریہ دو ارب ڈالر کی مالیت کا درجہ رکھتا ہے اور محض ایک ہی سال میں اس کے دو ارب ڈالرز پر پہنچنے کی توقع ہے۔

ہسپتال ہوں یا اسکول، حتیٰ کہ جیلوں میں بھی ذہنی بیداری یا 'مائنڈ فل نیس' سکھائی جاتی ہے. ایک اندازے کے مطابق، دفاتر اور کمپنیوں میں بھی ہر پانچ میں سے ایک کمپنی اپنے ملازمین کے لئے اس ٹریننگ کا اہتمام کرتی ہے۔

تحقیق یہ بتاتی ہے کہ یہ پریکٹس ذہنی دباؤ اور ڈپریشن پر قابو پانے میں مددگار ہونے کے ساتھ ساتھ خود اعتمادی میں اضافے کا باعث بھی بنتی ہے۔

ایسے فوائد دیکھ کر ہر شخص اور ادارے کی مائنڈ فل نیس میں دلچسپی سمجھ میں آتی ہے، کیونکہ بظاہر اس سے نا صرف انسان بہتر محسوس کرتا ہے بلکہ یہ اسے ایک بہتر انسان بننے میں بھی مدد فراہم کرتی ہے۔ ایک بہتر انسان بننے کا مطلب ہوا کہ آپ سخاوت دکھائیں گے، بے لوث ہونگے، انسانی خدمت پر یقین رکھیں گے۔

مگر پروفیسر پولین کہتے ہیں کہ جس طرح یہ امریکہ میں پریکٹس ہو رہی ہے اس سے معاشرتی فوائد حاصل ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جس طرح مراقبہ کے اس عمل کو اس کے ثقافتی سیاق و سباق سے سے نکال دیا گیا ہے کوئی بعید نہیں کہ یہ فائدہ پہنچانے کے بجائے نقصان کا باعث بنے۔

مائنڈ فل نیس دراصل بدھ مت سے لیا گیا ایک عمل ہے جس کا بدھ مت کی روحانی تعلیمات اور اخلاقیات سے گہرا تعلق ہے۔ لیکن امریکہ میں اس کے روحانی پہلوؤں کو نظر انداز کرکے اسے ذاتی بہبود اور کسی کام پر توجہ مرکوز رکھنے کی تکنیک کے طور پر فروغ دیا جارہا ہے۔

پروفیسر پولین کے مطابق، امریکی اور ایشیائی ثقافتوں میں بہت فرق ہے۔ امریکہ میں لوگ خود کو آزادانہ طور پر اور انفرادی طور پر دیکھتے ہیں۔۔ جیسے 'میری ذات' 'میرے حقوق' وغیرہ جب کہ ایشیائی ثقافتوں میں یہ 'میں' 'ہم' میں تبدیل ہوجاتی ہے. ایک ایسا معاشرہ جہاں ہر شخص دوسرے سے جڑا ہوا ہے،'ہم'، 'ہمارے حقوق' 'ہم کیا چاہتے ہیں'۔

بظاہر یہ ایسی باتیں ہیں جن پر شاید توجہ بھی نہ جائے مگر جس طرح یخنی بنانے کے لئے محض ایک خاص قسم کے پانی کا نا ہونا کھانے کا ذائقہ تبدیل کر دیتا ہے اسی طرح یہ 'ہم' 'میں' میں تبدیل ہو کر حاضر باشی یا مائنڈ فل نیس کی روح متاثر کر سکتا ہے۔

جہاں 'ہم' اجتماعی بھلائی اور بہتری سکھاتا ہے وہیں 'میں' ذاتی مفاد اور فوائد پر زور دیتی ہے۔ اور ذاتی مقاصد کا حصول اور 'میں' انسان کو خودغرض بنا سکتے ہیں۔

اس پر مزید تحقیق کے لئے پروفیسرپولین کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی ایک ساتھی کے ساتھ مل کر جو انسان کے خود انحصاری بقابلہ باہمی انحصاری کے رویوں میں ماہر ہیں، ایک تحقیق کی۔

انہوں نے اپنے چند طالبعلموں کی مدد سے کالج کے 364 طالبعلموں کو لیب میں بلایا اور انہیں 'مائنڈفل نیس' کی مشق کرائی۔ اس میں خود انحصاری اور اور باہمی انحصاری پر یقین رکھنے والے طالبعلموں پر بھی غور کیا گیا۔

مشق کے اختتام پر ان سے کہا گیا کہ کیا وہ جانے سے پہلے چندے کے لئے بھیجے جانے والے لفافے بنانے میں مدد کرنا پسند کریں گے؟

اس موقعہ پر دیکھا گیا کہ مراقبے کے بعد باہمی انحصاری پر یقین رکھنے والے طالبعلموں نے اس کام میں زیادہ وقت صرف کیا۔ جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ یہ مشقیں انفرادی معاشروں میں پروان چڑھنے والے افراد کے مقابلے میں ایسے معاشرے کے افراد کے لئے زیادہ سود مند ہیں جہاں باہمی انحصاری کو اہمیت دی جاتی ہو۔

تاہم، یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہر معاشرے میں رہنے والے تمام لوگوں کی سوچ ایک جیسی نہیں ہوتی۔ اور کچھ مزید مشقوں سے انفرادیت کو اجتماعیت میں تبدیل کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔

تو اس ساری گفتگو سے ہم نے کیا سیکھا؟

یہی کہ اس مشق کو اس کے صحیح تناظر میں استعمال کیا جائے تو اجتماعی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ ورنہ، بقول بدھ راہب میتھیو ریکارڈ کے، ''اگر تو اس کا مقصد محض بہترین طریقے سے توجہ مرکوز کرنا ہے تو بندوق تانے ایک تربیت یافتہ قاتل اس کی بہترین مثال ہوگا''۔

اگر 'مائنڈ فل نیس' سکھانے والے واقعی کمرشل مقاصد کے بجائے انسانی دکھ کا مداوا چاہتے ہیں تو اسے سکھاتے وقت یہ بھی سکھائیں کہ تمام انسان کس طرح ایک دوسرے سے جڑے ہیں اور کس طرح اجتمائی بھلائی ہی ذاتی کامیابی ہے۔ اس کے بعد ہی 'مائنڈ فل نیس' کے اجتماعی فوائد حاصل ہو پائیں گے۔

(اس مضمون میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں)