شام: کوبانی میں گھر پر گولہ باری، پانچ افراد زخمی

امریکی فوج نے بتایا ہے کہ اتوار کے دِن اُس کے لڑاکا طیاروں نے شام کے المدین اور رقعہ کے دو شہروں میں داعش کی ٹینکوں اور فائرنگ کے ٹھکانوں پر حملہ کرکے اُنھیں تباہ کیا

ترکی میں اتوار کے روز توپ خانے سے فائر کیا گیا ایک گولہ گھر پر لگنے سے پانچ افراد زخمی ہوئے، جب کہ چند ہی کلومیٹر دور ہمسایہ شام میں کرد جنگجوؤں نے داعش کے شدت پسندوں کے خلاف شدید لڑائی جاری رکھی۔

عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ آنے والے زخم جان لیوا نوعیت کے نہیں۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا آیا گولہ باری کس نے کی۔

شام کے سرحدی قصبے، کوبانی کے قریب ہونے والی لڑائی کو، جس علاقے کو عین العرب کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، تین ہفتے ہوگئے ہیں۔


ترکی نے اپنی فوج سرحد پر تعینات کر رکھی ہے۔ تاہم، اس کی طرف سے ابھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

شام اور عراق کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے، گذشتہ ہفتے ترکی کے قانون سازوں نے حکومت کو فوج سرحد پر لگانے کا اختیار دے دیا ہے، جہاں داعش کا شدت پسند گروہ اپنے قبضے میں لیے گئے رقبے کو وسعت دینے کی کوششیں کر رہا ہے۔

امریکی فوج نے بتایا کہ اتوار کے روز اُس کے لڑاکا طیاروں نے شام کے المدین اور رقعہ کے دو شہروں میں داعش کے ٹینکوں اور فائرنگ کے ٹھکانوں پر حملہ کرکے اُنھیں تباہ کر دیا۔

اِن تازہ ترین فضائی کارروائیوں کا مقصد کرد جنگجوؤں اور شام کے معتدل خیالات کے حامل باغیوں کی حمایت کرنا ہے، جو دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں کے حملوں سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کیے گئے یہ تازہ ترین حملے کوبانی کے قریب نہیں ہوئے، جہاں کرد دفاع کے سربراہ نے گذشتہ ہفتے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ جنگجوؤں کو یہ شکایت ہے کہ

امریکی قیادت والے اتحاد نے کوبانی کے قریب، اُنھیں اکیلا چھوڑ دیا ہے۔

اتوا کے روز عراق میں داعش کے خلاف امریکی لڑاکا طیاروں نے فلوجہ، ہیت، سنجار کے قریب کارروائیاں کیں، جن میں توپ خانے کے دستوں اور گاڑیوں پر حملے ہوئے۔

دوسری طرف، ایک اطلاع کے مطابق امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے ترک صدر رجب طیب اردگان سے اپنے بیان پر معذرت کا اظہار کیا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ ترکی نے اسلام نواز جنگجوؤں کو اپنی سرحد سے شام کے اندر داخل ہونے کا موقع فراہم کیا، جب کہ شدت پسند گروہوں کو اسلحے سے لیس کیا کیا۔


وائٹ ہاؤس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہفتے کو بائیڈن نے مسٹر اردگان کو ٹیلی فون کیا اور اپنے بیان پر معذرت کی جس میں کہا گیا تھا کہ ترکی نے جان بوجھ کر داعش کے شدت پسندوں یا شام مین کارفرما دیگر انتہا پسندوں کے فروغ کے سلسلے میں سہولتیں فراہم کیں۔