فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافے پر ہیومن رائٹس کمیشن کا اظہارِ تشویش

فائل فوٹو

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے حالیہ عرصے میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافے اور اس ضمن میں مقدمات کے اندراج پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے فوری اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔

اپنے حالیہ بیان میں کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا تھا کہ توہین مذہب کے زیادہ تر کیسز ایک خاص مسلک کے خلاف درج کیے جا رہے ہیں جس سے فرقہ وارانہ تشدد بڑھنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان کے بڑے شہروں کراچی اور اسلام آباد میں مختلف مسالک کی جانب سے ریلیوں اور جلسوں کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔

توہین مذہب کے الزامات کے تحت حالیہ دنوں میں مختلف مسالک کے درجنوں افراد کے خلاف مقدمات بھی درج کیے گئے ہیں۔

ایچ آر سی پی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ ایک ماہ میں توہین مذہب کے 40 مقدمات پاکستان کے مختلف علاقوں میں درج کیے گئے ہیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ معاملے کی حساسیت کے باعث پولیس حقائق کو جانے بغیر جلد بازی میں توہینِ مذہب سے متعلق مقدمہ درج نہ کرے۔

'توہینِ مذہب کا قانون سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے​'

ایچ آر سی پی کے چیئر مین ڈاکٹر مہدی حسن نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ زیادہ تر مقدمات شیعہ کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف درج ہو رہے ہیں۔

اُن کے بقول ایسا حکومت کی سر پرستی میں نہیں ہو رہا لیکن یہ حکومت کی نا اہلی ہے کہ وہ اس کی حوصلہ شکنی نہیں کرتی۔

ان کے بقول جب بھی ریاست میں مذہب کو استعمال کیا جائے تو سیاسی مقاصد کے لیے اس کا نتیجہ ہمیشہ زہر کی شکل میں نکلتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ توہین مذہب کے کا قانون سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ممنوع ہونا چاہیے اور یہ کام بنگلہ دیش کر چکا جس کی مثال ہمارے پاس موجود ہے۔

فرقہ واریت میں بیرونی ہاتھ ملوث؟

تجزیہ کار عامر رانا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ ہر بڑے شہر میں ریلیاں نکالی جا رہی ہیں جن میں سنی اور کالعدم تنظمیں بھی شرکت کر رہی ہیں۔ ایک دم اتنی بڑی تحریک شروع ہو گئی ہے۔ اس میں بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

عامر رانا نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کی صورتِ حال، اور پھر پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو بھی اس سارے معاملے میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

عامر رانا نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ ساری صورتِ حال کسی بھی وقت بڑے سانحے کا باعث بن سکتی ہے۔ کیوں کہ فرقہ واریت کے کچھ واقعات کوئٹہ اور راولپنڈی میں رپورٹ ہوئے ہیں۔

ان کے بقول حکومت صورتِ حال کو سنجیدہ نہیں لے رہی۔

تنازع کا آغاز کیسے ہوا؟

رواں برس محرم میں اس وقت تنازع نے جنم لیا جب اسلام آباد میں ایک مجلس میں مبینہ توہین آمیز کلمات سامنے آنے پر ایک عالم آصف علوی کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا. دو روز بعد آصف علوی برطانیہ روانہ ہو گئے تھے۔

پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے 10 محرم کی خصوصی ٹرانسمیشن کے دوران مبینہ نفرت انگیز مواد نشر کرنے پر ایک نجی ٹی وی چینل '24 نیوز' کا لائسنس بھی معطل کر دیا تھا۔ جب کہ چینل کے مالک کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ چینل انتظامیہ نے فوری طور پر معافی بھی نشر کی تھی۔

ملک بھر میں مختلف ریلیاں

پاکستان سنی تحریک کی اپیل پر ملک بھر میں 12 ستمبر کو 'یوم صحابہ و محبت اہل بیعت' کے طور پر منایا گیا تھا جس میں اسلام کی مقدس شخصیات کی توہین کرنے والوں کے خلاف مذمتی قراردادیں منظور کی گئی تھیں جب کہ ان افراد کی فوری گرفتاری اور سزا کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) اور اہل سنت و الجماعت نے بھی مختلف شہروں میں ریلیاں نکالیں۔

چھ ہفتوں میں فیصلہ سنانے کا حکم

توہین مذہب کے حساس معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے مقدمات کے فیصلے کی مدت کے تعین کے لیے دائر پٹیشن پر سات ستمبر کو محفوظ کیا گیا فیصلہ 12 ستمبر کو جاری کیا۔

عدالت نے انسداد دہشت گردی عدالت اسلام آباد میں مارچ 2017 سے زیرِ سماعت توہینِ مذہب کے مقدمے کا فیصلہ چھ ہفتوں کے اندر سنانے کا حکم دیا۔

عدالت نے قرار دیا کہ فوجداری کیسز بالخصوص توہین مذہب کے مقدمات کی سماعت ٹرائل کورٹس کو روزانہ کی بنیاد پر کرنی چاہیے۔

عدالتِ عالیہ نے توہینِ مذہب کے مقدمات کے فیصلے کی مدت کے تعین کے لیے قانون سازی کا معاملہ وفاقی حکومت پر چھوڑتے ہوئے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ حکومت اس سلسلے میں قانون سازی کرے گی۔

توہینِ مذہب کا قانون

پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین کے مطابق دینِ اسلام کی توہین کرنے والے کو سزائے موت سنائی جا سکتی ہے۔ لیکن الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ان قوانین کو اقلیتی برادریوں کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس کی حکومت تردید کرتی ہے۔

توہینِ مذہب کے قوانین میں 1980 سے 1986 کے دوران ترامیم کی گئی تھیں جس کے تحت اسلامی شخصیات کے خلاف توہین آمیز بیانات کو بھی جرم قرار دیا گیا تھا۔ جس میں تین سال قید کی سزا مقرر کی گئی۔ 1982 میں مزید ترامیم کر کے قرآن کی دانستہ بے حرمتی کی سزا پھانسی رکھی گئی۔ جب کہ 1986 میں پیغمبرِ اسلام کی توہین کی سزا بھی موت یا عمر قید مقرر کی گئی۔