پاکستان میں ٹیرر واچ لسٹ سے ہزاروں نام خارج

فائل فوٹو

امریکہ کی ایک ریگولیٹری ٹیکنالوجی کمپنی، کیسٹیلم نے کہا ہے کہ پاکستان نے خاموشی کے ساتھ مبینہ دہشت گردوں کی نگرانی کی فہرست میں سے ہزاروں نام خارج کر دیے ہیں۔ ان میں ممبئی حملوں کے نامزد ملزم ذکی الرحمان لکھوی کا نام بھی شامل ہے۔

یہ فہرست نیشنل کاؤنٹر ٹیررزم اتھارٹی (نیکٹا) مرتب کرتی ہے۔ اس فہرست سے مالیاتی اداروں کو کالعدم تنظیموں اور ان سے تعلق رکھنے والے افراد پر پابندیاں لگانے میں مدد ملتی ہے۔

عالمی سطح پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کرنے والی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے مطابق، اکتوبر 2018 میں اس فہرست میں 7600 نام تھے۔

کیسٹیلم کا کہنا ہے کہ 9 مارچ کو اس فہرست میں نصف یعنی 3800 نام رہ گئے تھے۔ 9 سے 27 مارچ تک اس فہرست سے 1069 اور 27 مارچ سے اب تک مزید 800 نام حذف کیے جا چکے ہیں۔

کمپنی کے شریک بانی پیٹر پیٹیسکی نے کہا کہ اتنی بڑی تعداد میں ناموں کا خارج کیا جانا غیر معمولی اقدام ہے۔ پہلے ہم نے کبھی نہیں سنا کہ ایسی فہرست سے ہزاروں نام نکال دیے جائیں اور کوئی وضاحت بھی نہ کی جائے۔

جن لوگوں کے نام فہرست سے خارج کیے گئے ہیں ان میں لشکر جھنگوی کے سرغنہ مطیع الرحمان علی محمد، لشکر طیبہ کے رہنما ذکی الرحمان لکھوی، مسلح تنظیم کے کمانڈر بہاول خان اور طالبان کے سابق وزیر دوست محمد نیک محمد شامل ہیں۔

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے مطابق اکتوبر 2018 میں ٹیرر واچ لسٹ میں 7600 نام تھے۔


فہرست میں ذکی الرحمان کا نام موجود نہیں۔ لیکن ایک نام ذکا الرحمان موجود ہے اور خیال ہے کہ وہی لشکر طیبہ کے رہنما کا ہے۔ کیسٹیلم کے مطابق، اگر خارج کیا گیا نام ذکی الرحمان لکھوی کا نہیں تو پھر اس کا مطلب ہے کہ ان کا نام کبھی اس فہرست میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔

امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے اس سلسلے میں حکومت پاکستان سے رابطہ کیا تو وزارت داخلہ کے ایک افسر نے بتایا کہ یہ اقدام انسداد دہشت گردی کے اقدامات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔

طاہر اکبر اعوان وزارتِ داخلہ کے سیکشن افسر ہیں۔ اخبار کے مطابق، انھوں نے کہا کہ فہرست میں کئی خامیاں تھیں اور اس میں ایسے لوگوں کے نام بھی شامل تھے جو انتقال کر چکے تھے یا افغان شہری تھے یا جن کے نام غلط تھے یا وہ لوگ تھے جنھوں نے کوئی جرم کیا ہوگا۔ لیکن، ان کا تعلق کسی کالعدم تنظیم یا دہشت گرد گروہ سے نہیں تھا۔

کیسٹیلم کے مطابق، اس بات کا امکان ہے کہ پاکستان کا یہ اقدام ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان کو نافذ کرنے کی کوششوں کا حصہ ہو، لیکن فہرست سے ناموں کے اخراج کا اعلان یا اس کی وضاحت نہ کرنے سے کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔