اسرائیل میں قبل از وقت انتخابات کا اعلان

فائل

اسرائیلی وزیرِاعظم نے کہا کہ وہ مقررہ میعاد سے دو سال قبل ہی عام انتخابات کا اعلان کر رہے ہیں تاکہ انہیں "اسرائیل کی قیادت کا واضح مینڈیٹ مل سکے"۔

اسرائیل کے وزیرِاعظم بینجمن نیتن یاہو نے حکمران اتحاد میں اختلافات کے بعد پارلیمان تحلیل کرنے اور ملک میں قبل از وقت انتخابات کرانے کا اعلان کیا ہے۔

منگل کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی وزیرِاعظم نے وزیرِ خزانہ یائر لیپڈ اور وزیرِانصاف زیپی لیونی کی جانب سے حکومت پر تنقید پہ سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں اپنی کابینہ سے برطرف کرنے کا اعلان کیا۔

نیتن یاہو نے کہا کہ اتحادی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے وزرا کی جانب سے ان کی حکومت پر "سخت حملوں" کے بعد وہ "حکومت کے اندر جنم لینے والی حزبِ اختلاف کو برداشت" کرنے پہ آمادہ نہیں اور ملک کے مفاد میں قبل از وقت انتخابات کا "خطرہ مول لے رہے ہیں"۔

اسرائیلی وزیرِاعظم نے کہا کہ وہ اس سیاسی صورتِ حال میں حکومت اور پارلیمان کو مقررہ میعاد سے دو سال قبل ہی تحلیل کرتے ہوئے عام انتخابات کا اعلان کر رہے ہیں تاکہ انہیں "اسرائیل کی قیادت کا واضح مینڈیٹ مل سکے"۔

اسرائیلی قانون کے تحت اگر پارلیمان 'کنیسے' کو رواں ہفتے ہی تحلیل کردیا گیا تو نئے عام انتخابات آئندہ سال مارچ تک متوقع ہیں۔

بینجمن نیتن یاہو کی 'لیکوڈ پارٹی' کی سربراہی میں قائم حکومت میں شامل دیگر دو جماعتوں کے قائدین یائر لیپڈ اور زپی لیونی ماضی میں کئی معاملات پر وزیرِاعظم کے ساتھ اختلافی نکتۂ نظر کا اظہار کرتے رہے ہیں۔

یائر لیپڈ کی جماعت کی جانب سے اسرائیل کو یہودی ریاست قرار دینے کے لیے قانون سازی کی کوششوں نے حکمران اتحاد میں پہلے سے موجود ان اختلافات کو مزید ہوا دی ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ مجوزہ قانون کی منظوری کے نتیجے میں اسرائیل میں عربی کو حاصل سرکاری زبان کا درجہ ختم کردیا جائے گا جس کے نتیجے میں اسرائیل کے جمہوری نظام کو دھچکا پہنچے گا اور ملک کی 20 فی صد عرب آبادی کے قومی دھارے سے مزید دور ہو جانے کے خدشات میں اضافہ ہوگا۔

مذکورہ قانون کے علاوہ حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کے مابین آئندہ سال کے بجٹ، ٹیکسوں سے متعلق حکمتِ عملی اور ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے معاملات پر بھی سخت اختلافات تھے جنہیں دور کرنے کے لیے جاری مذاکرات پیر کی شب ناکام ہوگئے تھے۔

رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق وزیرِاعظم نیتن یاہو کی عوام میں مقبولیت ماضی کے مقابلے میں کم ہوئی ہے لیکن نئے انتخابات کی صورت میں وہ بدستور سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرسکتے ہیں۔