مغوی طالبات کی بازیابی کی مہم، ملالہ کی نائجیریا آمد

ملالہ نے کہا ہے کہ اُنھیں امید ہے کہ اُن کی موجودگی کے باعث مغوی لڑکیوں کو اپنے گھر واپس لانے کے سلسلے میں حکومت پر دباؤ بڑھے گا

نوجوان پاکستانی سرگرم کارکن، ملالہ یوسفزئی اس وقت نائجیریا میں ہیں جہاں وہ اُن 200 سے زائد نائجیریائی اسکول کی بچیوں کی رہائی کی کوششوں میں مدد دینا چاہتی ہیں، جِنھیں شمال مشرقی بورنو ریاست میں بوکو حرام کے باغی گروپ نے اغوا کیا تھا۔

سترہ برس کی ملالہ طالبات کے رشتہ داروں سے ملنے کے علاوہ نائجیریائی صدر گُڈلک جوناتھن کے ساتھ ملاقات کی کوشش کریں گی۔


ملالہ نے کہا ہے کہ اُنھیں امید ہے کہ اُن کی موجودگی کے باعث لڑکیوں کو اپنے گھر واپس لانے کے سلسلے میں حکومت پر دباؤ بڑھے گا۔

سنہ 2012 میں خواتین اور لڑکیوں کے لیے تعلیم کے فروغ کی کوششوں کی پاداش میں، پاکستانی طالبان نے ملالہ کو گولی مار کر تقریباً ہلاک کردیا تھا۔ حملے کے نتیجے میں اُن کے تعلیم کے فروغ کے مقصد کی حمایت میں اضافہ ہوا۔

وہ ’یوم ملالہ‘ کے موقع پر نائجیریا پہنچی ہیں۔ اقوام متحدہ نے اس دِن کے منائے جانے کو بچوں کی تعلیم کےفروغ کی کوشش قرار دیا ہے، اور کہا ہے کہ تعلیم کے دشمنوں کے مقابلے میں وہ زیادہ طاقتور ہیں۔

اپریل میں، بوکو حرام نے نائجیریا کے قصبے چِبوک میں ثانوی اسکول کی بچیوں کو اغوا کیا تھا۔ ہوسا زبان میں گروپ کے نام کا مطلب ہے: ’مغربی تعلیم گناہ ہے‘۔

امریکہ اور دیگر ممالک کی طرف سے انٹیلی جنس اورنگرانی کی مدد کے باوجود، نائجیریائی حکام ابھی تک اسکول کی اِن لڑکیوں کو رہا کرانے میں ناکام رہے ہیں۔

حکام نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ لڑکیوں کی رہائی کے لیے کسی فوجی کارروائی کی صورت میں اُن کی زندگی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔