مسلمان برادری تحمل سے کام لے: ڈیلس کے ممتاز اماموں کی اپیل

فائل

امام ضیا الحق شیخ نے کہا ہے کہ، ’مسلمان برادری کے رُکن کی حیثیت سے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تسلیم کریں کہ اس معاملے میں مذہبی نفرت کا عنصر موجود ہے، لیکن، ہم اس کا شکار نہ بنیں‘

ٹیکساس کے دو ممتاز اماموں نےڈیلس کے شہر، گارلینڈ میں پیر کے روز پیش آنے والے واقع کی مذمت کرتے ہوئے، مسلمان برادری سے تحمل سے کام لینے پر زور دیا ہے، اور کہا ہے کہ وہ ’کسی طور پر بھی تیش میں نہ آئے‘۔

یہ واقع اُس وقت پیش آیا جب دو افراد نے پیغمر اسلام کے تصویری خاکوں کی نمائش کے باہر ایک اسکول کے سکیورٹی اہل کار پر گولیاں چلائیں، جو اُس وقت ہلاک ہوئے جب پولیس نے جوابی فائر کھولا۔

اِن میں سے ایک شخص کی شناخت ایلٹن سمپسن کے طور پر کی گئی ہے، جو ایریزونا کے مکین تھے جن کے خلاف ماضی میں دہشت گردی کے شبے میں تفتیش کی جا چکی ہے۔ اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے مطابق، دوسرے شخص کی شناخت، نادر صوفی کے طور پر کی گئی ہے۔

’دی ڈیلس مارننگ نیوز‘ اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق، امام ضیا الحق شیخ نے کہا ہے کہ، ’مسلمان برادری کے رُکن کی حیثیت سے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تسلیم کریں کہ اس معاملے میں مذہبی نفرت کا عنصر موجود ہے، لیکن، ہم اس کا شکار نہ بنیں۔

امام ضیاالحق شیخ نارتھ ٹیکساس کی سب سے بڑی مسجد کے امام ہیں۔ اُنھوں نے کہا ہے کہ شرارت کرنے والے لوگ مسلمانوں کے جذبات بھڑکانا چاہتے ہیں، تاکہ غصے کی حالت میں اُن سے کوئی غلط عمل سرزد ہو۔

امام ضیا، اِرونگ میں قائم ’اسلامی مرکز‘ کے سربراہ ہیں۔ بقول اُن کے، ’لوگوں کو یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ہم اس تقریب سے دور رہیں، اور اِسے کسی قسم کی پبلسٹی نہ دیں‘۔

اس تقریب کا انعقاد نیویارک میں قائم ’امریکن فریڈم ڈفنس اِنی شئیٹو‘ کی جانب سے کیا گیا تھا۔

یہ واقعہ ڈیلس شہر کے قریب گارلینڈ میں پیش آیا۔ اطلاعات کے مطابق حملے میں ایک سکیورٹی اہلکار زخمی ہوا، مگر اس کی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے اور اسے اسپتال سے فارغ کر دیا گیا۔

گارلینڈ شہر کے حکام کے مطابق گولیاں چلانے والوں کی کار میں بموں کی ممکنہ موجودگی کے لیے تلاشی لی گئی، جب کہ حکام نے ان دو افراد کی شناخت ظاہر نہیں کی۔

اس تصویری مقابلے کا اہتمام ’امریکن فریڈم ڈفنس انیشیٹیو‘ نامی تنظیم نے کیا تھا اور اس میں فاتح کے لیے 10,000 ڈالر انعامی رقم رکھی گئی تھی۔اس تنظیم کی ویب سائٹ میں کہا گیا تھا کہ اس مقابلے میں 350 تصویری خاکے بھیجے گئے تھے جو ’اظہارِ رائے کی آزادی کی علامت ہوگا اور یہ دکھائے گا کہ امریکی عوام متشدد اسلام پسندوں کے ڈراوے میں نہیں آئیں گے۔

مسلمان پیغمبر اسلام کی تصویر کشی کو مذہب کی توہین سمجھتے ہیں۔