'جی-20' اجلاس شروع، شام کو ایجنڈے میں شامل کرنے کا عندیہ

'جی-20' سربراہی اجلاس کی پہلی نشست کا منظر

اجلاس کے میزبان اور روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے شام کے تنازع کو اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
دنیا کے 20 معاشی طور پر مضبوط ممالک کی نمائندہ تنظیم 'جی-20' کا سربراہی اجلاس روس میں شروع ہوگیا ہے جب کہ اجلاس کے میزبان اور روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے شام کے تنازع کو اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔

روس کے شہر سینٹ پیٹرس برگ میں ہونے والے اجلاس کی خیرمقدمی نشست سے خطاب کرتے ہوئے صدر پیوٹن نے کہا کہ بعض رہنماؤں نے ان سے اجلاس کے دوران میں شام سمیت "بین الاقوامی سیاست کے کئی فوری نوعیت کے معاملات" پر گفتگو کے لیے وقت مختص کرنے کا کہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان موضوعات پر جمعرات کو عشائیہ کے دوران میں گفتگو ہوسکتی ہے۔

دو روزہ سربراہی اجلاس کے باضابطہ ایجنڈے میں شام کا بحران شامل نہیں ہے، لیکن توقع کی ہے کہ اجلاس میں شریک رہنما اپنی انفرادی ملاقاتوں میں اس معاملے پر بات چیت کریں گے۔

شام کی حکومت کی طرف سے شہریوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ استعمال پر صدر اوباما اس کے خلاف فوجی کارروائی کے لیے اندرون ملک اور عالمی سطح پر حمایت کے حصول کی کوششوں میں مصروف ہیں۔


سینٹ پیٹرس برگ پہنچنے کے بعد صدر اوباما کی پہلی ملاقات جاپان کے وزیرِاعظم شینزو ایبے کے ساتھ ہوئی ہے جس کے دوران ہونے والی گفتگو میں شام کا تنازع سرِ فہرست رہا۔

ملاقات سے قبل صحافیوں سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے صدر اوباما نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ عالمی رہنماؤں کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں شام کی صورتِ حال اور صدر بشار الاسد کی حکومت کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر مشترکہ عالمی ردِ عمل ظاہر کرنے پر تفصیلی بات چیت ہوگی۔

اس سے قبل بدھ کو روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے اپنے ایک بیان میں خبردار کیا تھا کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوری کے بغیر شام کے خلاف کاروائی "ایک ناقابلِ قبول جارحیت" ہوگی۔

تاہم انہوں نے پہلی بار اپنے موقف میں لچک پیدا کرتے ہوئے عندیہ دیا تھا کہ اگر دمشق حکومت کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے "قابلِ بھروسا" شواہد پیش کیے جائیں تو ان کا ملک شام کے خلاف فوجی کاروائی کی حمایت کرسکتا ہے۔

لیکن روس کی جانب سے شام سے متعلق اپنے موقف میں تبدیلی کے اس واضح اظہار کے باوجود 'وہائٹ ہاؤس' کے مشیر بین رہوڈز نے کہا ہے کہ 'جی-20' سربراہی اجلاس کے موقع پر صدر اوباما اور صدر پیوٹن کے درمیان علیحدہ ملاقات کا کوئی امکان نہیں۔

تاہم امریکی عہدیدار نے کہا کہ اجلاس کے دوران میں دونوں صدر کو باہمی گفتگو کے کئی دیگر مواقع میسر آئیں گے۔ جناب رہوڈز نے کہا کہ امریکہ شامی حکومت کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے شواہد روس کے علم میں لاتا رہے گا۔

شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کا اہم ترین عالمی اتحادی روس، چین کے ساتھ مل کر سلامتی کونسل میں پہلے ہی کئی ایسی قراردادیں ویٹو کرچکا ہے جن کا مقصد شام میں گزشتہ ڈھائی برسوں سے جاری خانہ جنگی پر صدر بشار الاسد کی حکومت کی سرزنش کرنا تھا۔

سینٹ پیٹرز برگ میں موجود چین کے نائب وزیرِ خزانہ ژو گوانگ ژو نے جمعرات کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شام کے خلاف کسی بھی فوجی کاروائی کے نتیجے میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کا اندیشہ ہے جس کا عالمی معیشت پر منفی اثر پڑے گا۔

دریں اثنا شام کے لیے اقوامِ متحدہ اور عرب لیگ کے مشترکہ ایلچی لخدار براہیمی بھی سینٹ پیٹرز برگ پہنچ رہے ہیں جہاں وہ شام کے مسئلے پر ہونے والی کانفرنس کی میزبانی میں اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کی معاونت کریں گے۔