صدارتی آرڈیننس کی منظوری کے خلاف اپوزیشن ارکان کی تنقید

پارلیمنٹ ہاؤس

سینیٹ کا اجلاس اپوزیشن کی درخواست پر بلایا گیا ہے۔ ا گرچہ اپوزیشن کے بلائے گئے اجلاس عمومی طور پر مختصر ہوتے ہیں لیکن یہ اجلاس کئی روز تک چلنے کی شنید ہے۔

جب سینٹ پہنچی تو دیکھا کہ پہلے دن کا ایجنڈا ہی بھاری بھرکم تھا جس میں کشمیر کے حالات سے لے کر سیاسی لیڈرز کو بنیادی حقوق کی عدم فراہمی اور میڈیا پر پابندیاں زیر بحث لانے کی تحریک درج تھی۔

اجلاس کی کارروائی شروع ہونے بھی نہ پائی تھی کہ اپوزیشن ارکان نے بات کرنے کی اجازت چاہی جس پر ڈپٹی چیرمین سینٹ سلیم مانڈی والا کا کہنا تھا کہ بزنس ایڈوائزری میں طے شدہ معاملات کو الجھایا نہ جائے۔ لیکن ایک رپورٹر کے لیے یہ معلوم کرنا اہم ہوتا جا رہا تھا کہ آخر اپوزیشن سرکاری بنچوں سے کیا چاہتی ہے۔

سابقہ چیئرمین سینٹ اور پیپلز پارٹی کے رہنما سینٹر رضا ربانی نے فلور پر بولنا شروع کیا تو واضح ہوا کہ مسئلہ وہ آٹھ صدارتی آرڈیننس ہیں جو حال ہی میں منظور کیے گئے۔ اپوزیشن ارکان کا یہی مطالبہ تھا کہ اپوزیشن کے بلائے گئے اجلاس میں کہیں یہ شرط نہیں کہ سرکاری بل منظوری کے لیے پیش نہیں ہو سکتے۔

سینٹر رضا ربانی بیٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ سینٹ کی سابقہ قائد حزب اختلاف سینٹر شیری رحمان نے اپوزیشن ممبران کے شور شرابے میں بولنا شروع کیا تو ایوان سے اٹھنے والی آوازیں قدرے دب گئیں۔

سینیٹر شیری رحمان کا کہنا تھا کہ صدارتی محل کو ایک آرڈیننس فیکٹری بنا دیا گیا ہے۔ ان کی آواز بلند ہوتی گئی جوں جوں وہ منظورشدہ آرڈینس کی تفصیل بتانے لگیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان آرڈیننس کو بالا ہی بالا اس لیے رکھا جا رہا ہے کیونکہ حکومت جانتی ہے کہ سینٹ میں اپوزیشن کے پاس عددی برتری ہے اور کسی قسم کا بھی متنازعہ بل فوری طور پر مسترد ہو جائے گا۔ اس نقطے پر قائد ایوان سینٹر شبلی فراز نے کہا کہ ان کی حکومت نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا کہ اہم معاملات سینٹ سے دور رکھے جائیں۔ لیکن سینٹر اعظم سواتی اس موقع پر کھڑے ہوئے اور بات شروع ہی کی تھی کہ اپوزیشن کی نعرے بازی میں ان کی آواز گم ہو گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن نے کم از کم دس آرڈیننس اپنے دور اقتدار میں منظور کیے اور پیپلز پارٹی نے اپنی حکومت کے تیسرے سال اٹھاون صدارتی آرڈیننس کی منظوری دی۔ یہ سننے کی دیر تھی کہ ایوان ایک بارپھر حکومت مخالف آوازوں سے گونج اٹھا۔ ڈپٹی سپیکر نے اس موقع پر سینٹ میں قائد ایوان سے مسکراتے ہوئے پوچھ ہی لیا کہ آخر وہ یہ آرڈینس پیش کر ہی کیوں نہیں دیتے جس پر سینٹر شبلی فراز بولے کہ انکار تو نہیں کیا لیکن پیش کب کرنا ہے، یہ ابھی طے نہیں ہو پایا۔ اسی لیے حتمی دن کا اعلان نہیں کر سکتے تھے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کشمیر پر بات ہونی چاہئیے تھی جیسا کہ سینٹ کے ایجنڈے میں درج بھی تھا۔ لیکن اپوزیشن ارکان اس کا جواب سوچ کر ہی آئے تھے۔ اپوزیشن سے یہی آواز آئی کہ اگر پی ٹی آئی واقعی کشمیر پر بحث پر اتنی سنجیدہ ہے تو حکومت کی جانب سے پہلے اجلاس کیوں نہ بلا لیا گیا؟

سینٹ کا سیاسی درجہ حرارت اتنا بڑھ چکا تھا کہ ایک مختصر وقفہ لیا گیا جس کی وجہ سے ایجنڈے پر درج چار میں سے ایک تحریک پر بھی بحث کا آغاز نہ ہوا اور اجلاس دوبارہ شروع ہو کر بھی معطلی کی نذر ہو گیا۔

اب گیلری میں بیٹھے مجھ سمیت سبھی صحافی کھڑے ہو کر ایوان کی کارروائی دیکھ رہے تھے جہاں سینٹر رضا ربانی اور اپوزیشن کے باقی ارکان ہم آواز ہو کر پارلیمنٹ کو عزت دو کے نعرے لگاتے لگاتے چیئرمین کی کرسی کے پاس پہنچ چکے تھے جو کہ اب سرکاری بینچوں کی طرح خالی پڑی تھی۔

حال ہی میں آٹھ نئے صدارتی آرڈنینس پاس کیے گئے ہیں جن میں نیب سے متعلق آرڈینس میں تبدیلی بھی شامل ہے جس کا اثر ہائی پروفائل قیدیوں پر بھی پڑ سکتا ہے جبکہ دیگر آرڈیننس میں بے نامی جائیدادوں کی روک تھام اور 'وھسل بلوور' ایکٹ شامل ہیں ۔