بن لادن کی پناہ گاہ دیکھ کر ششدر رہ گئے، امریکی حکام

ایبٹ آباد میں کاکول ملٹری اکیڈمی کی طرف جانے والی سڑک پر فوجی اہلکاروں کا گشت

امریکی حکام نے بتایا کہ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے مارا گیا یہ چھاپہ چالیس منٹ سے کم وقت تک جاری رہا اور اس دوران مقامی حکام کی طرف سے ہمیں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بن لادن کے علاوہ اس کارروائی میں تین دیگر مرد بھی ہلاک ہوئے جبکہ دو خواتین زخمی بھی ہوئیں۔ ”ایک ہیلی کاپٹر تکنیکی خرابی کے باعث گرگیا۔ اس پر سوار امریکی فوجیوں نے حادثے کا شکار ہیلی کاپٹر احتیاطً مکمل طور پر تباہ کرنے کے بعد کارروائی میں شامل دوسرے ہیلی کاپٹروں پر سوار ہوکر وہا ں سے روانہ ہوگئے۔“

امریکی حکام نے بتایا ہے کہ سراغ رساں اداروں کو اگست 2010ء میں ایبٹ آباد میں اُسامہ بن لادن کی پناہ گاہ کے بارے میں علم ہوا جو پاکستان کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں قدرتی آفات اور دہشت گرد حملوں سے ایک محفوظ مقام پر واقع تھی اور جہاں بڑی تعداد میں سابق فوجی بھی رہائش پذیر ہیں۔ ”اس احاطے کو دیکھ کر ہم ششدر رہ گئے کیونکہ یہ ایک غیر معمولی انوکھی عمارت ہے جو علاقے میں موجود دیگر مکانات سے آٹھ گنا بڑی ہے۔ “

واشنگٹن میں نام نا ظاہر کرنے کی شرط پر صحافیوں کو اس آپریشن کی تفصیلات بتائے ہوئے امریکی حکام نے کہا کہ ایبٹ آباد کے مضافات میں ایک تنگ اور نسبتاً گندی سڑک کے اختتام پر یہ عمارت 2005ء میں تعمیر کی گئی تھی اور اگلے چھ سالوں میں اس کے اردگر دوسرے مکانات بھی تعمیر ہوتے رہے۔ ”لیکن بن لادن کی قیام گاہ کے حفاظتی اقدامات غیر معمولی نوعیت کے تھے۔ اس کی دیواریں بارہ سے اٹھارہ فٹ بلند اور اُن پر خاردار تاریں بچھی ہوئی تھیں۔ دیواروں کے اندر دیواریں بنا کر عمارت کی غیر معمولی حفاظت کو یقینی بنایا گیا تھا۔“

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ عمارت میں صرف دو حفاظتی دروازوں سے داخل ہونا ممکن ہے۔’تین منزلہ مرکزی عمارت میں احاطے سے باہر کی سمت بہت کم کھڑکیا ں رکھی گئیں ہیں جبکہ تیسری منزل پر ٹیرس پر سات فٹ اونچی دیوار بنائی گئی ہے۔ دس لاکھ ڈالر مالیت کے اس گھر میں نہ تو کوئی ٹیلی فون اور نہ ہی انٹرنیٹ کا کنکشن ہے اور اس کے مالکان کے ذرائع آمدنی کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا۔

سراغ رساں ماہرین اس احاطے کا جائز ہ لینے کے بعداس نتیجے پر پہنچے کہ یہ مکان کسی انتہائی اہم شخص کو چھپانے کے لیے تعمیر کیا گیا ہے۔
” ہمیں جلد یہ اندازہ بھی ہو گیا کہ اس میں ایک سے زیادہ خاندان آباد ہیں اور یہاں پر رہنے والے ایک تیسرے خاندان کے افراد کی تعداد بن لادن کے خاندان کے ارکان کے برابر تھی جس پر ہمیں یقین ہوگیا کہ یہ اُسامہ بن لادن ہی ہوگا۔“

امریکی حکام نے بتایا کہ مختلف ذرائع سے وہ یہ بہترین اندازہ لگانے میں کامیا ب ہوئے کہ اس مکان میں بن لادن اپنے خاندان کے ساتھ رہائش پذیر ہے جس میں اُس کی سب سے چھوٹی بیوی بھی شامل ہے۔ ”ہم نے اس مکان کے بارے میں جو بھی تجزیہ کیا وہ ماہرین کے ان اندازوں کے عین مطابق تھا جو اُنھوں نے اسامہ بن لادن کے ٹھکانے کے بارے میں قائم کررکھے تھے۔ “

امریکی حکام نے بتایا کہ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے مارا گیا یہ چھاپہ چالیس منٹ سے کم وقت تک جاری رہا اور اس دوران مقامی حکام کی طرف سے ہمیں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بن لادن کے علاوہ اس کارروائی میں تین دیگر مرد بھی ہلاک ہوئے جبکہ دو خواتین زخمی بھی ہوئیں۔ ”ایک ہیلی کاپٹر تکنیکی خرابی کے باعث گرگیا۔اس پر سوار امریکی فوجیوں نے حادثے کا شکار ہیلی کاپٹر احتیاطً مکمل طور پر تباہ کرنے کے بعد کارروائی میں شامل دوسرے ہیلی کاپٹروں پر سوار ہوکر وہا ں سے روانہ ہوگئے۔“

ٓامریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ نے صرف پاکستان کو بن لادن کے ٹھکانے کے بارے میں معلومات سے آگاہ کیا کیونکہ امریکی فوجیوں کی ذاتی سکیورٹی اور اس کارروائی کو کامیابی سے مکمل کرنے کے لیے ایساکرنا ناگزیر تھا۔”حتیٰ کہ امریکی حکومت کے اندر بہت تھوڑے افراد اس سے آگاہ تھے۔“

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ آپریشن کے دوران اسامہ بن لادن نے مزاحمت کی کوشش کی اور اس دوران اُسے ہلاک کردیا گیا۔ ”یہ بات ہمارے لیے انتہائی تشویش کا باعث ہے کہ وہ (اسامہ بن لادن) پاکستان کے اندر موجود تھا لیکن یہ وہ مسئلہ ہے جس پر ہم پاکستانی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے۔“

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ جس مکان پر چھاپہ ماراگیا وہ پانچ سال قبل تعمیر کیا گیا تھا لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ اسامہ بن لادن وہاں کتنے عرصے سے رہائش پذیر تھا۔ ”ہمارا اندازہ ہے کہ یہ مکان اُسے پناہ دینے کے لیے ہی تعمیر کیا گیاتھا۔“