’’آلو انڈے‘‘ کی مقبولیت

’’آلو انڈے‘‘ کی مقبولیت

پاکستان میں ان دنوں ایک غیر معروف میوزیکل گروپ کا پنجابی زبان میں عکس بند کیا گیا گانا ’آلو انڈے‘ تیزی سے مقبول ہو رہا ہے جس میں آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی، جرائم وخونریز تشدد کے آئے روز کے واقعات اورسیاسی رہنماؤں سےعوامی مایوسی کا احوال پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کی عدلیہ اورفوجی قیادت کا بھی پہلی مرتبہ کھلے عام تمسخر اڑایا گیا ہے۔

گوشت اور دال کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کے باعث گھروں میں آلو اورانڈوں کا سالن پکانے کےبڑھتے ہوئے رجحان سے بظاہر بیزارہو کریہ گانا لکھا گیا ہے اس لیے اس کا عنوان بھی ’آلو انڈے‘‘ رکھا گیا ہے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے تین نوجوانوں پر مشتمل ’بے غیرت بریگیڈ‘ نامی میوزیکل گروپ کے اس ویڈیو گانے کو سب سے پہلے’یو ٹیوب‘ پر پیش کیا گیا اورچند ہی دنوں میں اس نے انٹرنیٹ استعمال کرنے والے لاکھوں افراد کی توجہ حاصل کرلی۔

اس وقت یہ گانا اور اسے پیش کرنے والے تینوں فنکار پاکستان کے نجی ٹی وی چینلز کی بھرپور توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔

پاکستان میں فوج کے طاقتور ادارے کے سربراہ کے بارے میں شاذو نادر ہی سرعام تضحیک آمیزالفاظ کہے جاتے ہیں لیکن ان نوجوان فنکاروں نے یہ حد بھی پھلانگ لی ہے۔

گانے کے پنجابی بول میں جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدتِ ملازمت میں متنازع توسیع کا ذکرکرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’ایکسٹنشن دے پہ گئے رولے تائیوں چیف دی بولتی وی بند اے‘‘ یعنی ملازمت میں توسیع لینے کے بعد آرمی چیف کی بولتی بھی بند ہوگئی ہے۔

قتل کے الزامات میں ملوث سیاست دانوں اور دیگر افراد کو اعزازات سے نوازنے اور بے گناہ انسانوں کو ہلاک کرنے والوں کو ہیرو قرار دینے کے بڑھتے ہوئے رجحان پر بھی گانے میں تنقید کی گئی ہے۔

پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے ممتاز قادری اوربھارت کے اقتصادی مرکز ممبئی میں دہشت گردانہ حملوں میں ملوث پاکستانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ’’یہاں قادری نواب بن گیا ہے اور ہیرو اجمل قصاب ہے‘‘۔

اپوزیشن رہنماؤں عمران خان، نواز شریف اوراُن کے بھائی وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی گانے کی تنقید کی زد میں ہیں۔ ’’ان گنجوں (شریف برادران) نے پتنگ لوٹ لی ہے جبکہ خان کے اندھیروں کی آخری روشنی چیف جسٹس افتخار محمد چودھری ہے۔‘‘

جولائی دوہزار سات میں اسلام آباد کی لال مسجد کے خلاف فوجی آپریشن کے دوران برقع میں فرار ہونے کی کوشش کرنے والے مولانا عبدالعزیز اور پاکستان کے نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کو بھلا دینے کی روش پر بھی گانے میں تنقید کی گئی ہے۔’’یہاں مُلا حجاب میں بھاگ گئے اور عبدالسلام کو کوئی پوچھتا ہی نہیں۔‘‘

ڈاکٹر عبدالسلام کو1979میں دو دوسرے سائنسدانوں سمیت فزکس کا نوبل انعام ملا تھا لیکن اقلیتی احمدی فرقہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے پاکستان میں بنیاد پرست مذہبی و سیاسی حلقوں میں ان کے کارناموں کے تذکرے سے گریز کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں اغواء برائے تاوان اور قتل جیسے جرائم میں حالیہ دنوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے جب کہ پولیس کے محکمے میں بدعنوانی اور اس کی خراب کارکردگی پر بھی حکومت مسلسل زیر تنقید ہے۔

اس صورت حال کوپیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’یہاں ڈاکو چن چن کر لوگوں کو ہلاک کررہے ہیں اور پولیس کی چوری کو بھی کوئی نہیں پکڑتا‘‘۔ گانے کے دوران گلوکار ہاتھوں میں مختلف کتبے اُٹھا کر دکھاتا رہتا ہے جس میں سے ایک کی تحریر کہتی ہے ’’یہ ویڈیو یہودیوں کی سپانسر کردہ ہے۔‘‘

ویڈیو گانے کے اختتام پر گلوکار نے جو کتبہ اٹھا رکھا ہے اس کی تحریر کچھ یو ں ہے کہ ’’اگر آپ چاہتے ہیں کہ مجھے سر میں گولی ماردی جائے تو برائے مہربانی اس ویڈیو کے بارے میں اپنی پسندیدگی کا اظہار کریں۔‘‘

گانا دیکھنے کے لیے نیچے دیے لنک کو کلک کیجیے:

http://www.youtube.com/watch?v=ZEpnwCPgH7g