مارک گراسمین کی وزیر اعظم گیلانی سے ملاقات

امریکی نمائندہ خصوصی کی وزیراعظم گیلانی سے ملاقات

پاکستان اور افغانستان کے لیے صدر براک اوباما کے نمائندہ خصوصی مارک گراسمین نے بدھ کواسلام آباد میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے ملاقات کی جس میں باہمی دلچسپی کے دوطرفہ اُمور اور علاقائی صورت حال پر بات چیت کی گئی ۔

ملاقات کے بعد وزیراعظم ہاوٴس سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق مارک گراسمین نے کہا ہے کہ نوے کی دہائی کے اوائل میں افغانستان سے سویت یونین کی افواج کے انخلاء کے بعد پاکستان کو تنہا چھوڑنا ایک غلطی تھی جسے دہرایا نہیں جائے گا۔ امریکی خصوصی ایلچی نے کہا کہ اُن کا ملک سمجھتا ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے مصالحتی کوششوں کے عمل کی کامیابی پاکستان کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔

بیان کے مطابق وزیر اعظم گیلانی نے کہا کہ دہشت گرد ی کے خلاف جنگ میں دونوں ملکوں کو یکساں موقف اور سوچ پر متفق ہونا چاہیے تاکہ شدت پسندوں کو فائدہ اُٹھانے کا موقع نا ملے ۔ ملاقات میں افغانستان میں قیام امن اور مصالحت کی پالیسی پر بھی تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا۔

وزیراعظم گیلانی نے کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ تجارت کے ذریعے افغانستان کے وسطیٰ ایشیائی ممالک سے رابطوں میں اضافہ ہو ۔ اُنھوں نے ایک مرتبہ پھر اپنے ملک کے موقف کو دہرایا کہ مستحکم افغانستان ناصرف پاکستان بلکہ خطے میں امن کے لیے ضروری ہے ۔

مارک گراسمین افغانستان پاکستان اور امریکہ کے سہ فریقی اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد آئے تھے ۔ لیکن اپنے قیام کے دوران اُنھوں نے صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم گیلانی سمیت پاکستانی قائدین سے ملاقاتوں میں پاکستان میں موجود امریکی سفارت کاروں پرعائد نئی سفری پابندیوں کے معاملے پربھی تفصیلی گفتگو کی ۔

امریکی نمائندہ خصوصی نے منگل کی شب ایک نیوز کانفرنس میں بھی اس توقع کا اظہار کیا تھا کہ امریکی سفارت کاروں کی نقل و حرکت کے حوالے سے عائد پابندیوں کے معاملے کو احسن طریقے سے حل کر لیا جائے گا ۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ امریکہ سمیت کسی بھی ملک کے سفارت کاروں پر مخصوص سفری پابندیاں عائد نہیں کی گئی ہیں تاہم معمول کے قواعد و ضوابط کا اطلاق تمام ممالک کے سفارت کاروں پر ہوتا ہے ۔

سفارت کاروں پر سفری پابندیوں کی خبریں حال ہی میں اُس وقت سامنے آئیں جب پشاور جانے والے امریکی سفارت کاروں کو حالیہ دنوں میں متعدد بار پشاور کا سفر کرنے سے باز رکھا گیا۔ پاکستانی حکام کا موقف رہا ہے کہ ان افراد کے پاس ضروری سفری دستاویزات نہیں تھیں۔ لیکن اطلاعات کے مطابق یہ اقدامات ملک میں موجود امریکی سفارتکاروں کے سفر پر نئی پابندیوں کاحصہ تھے۔