دہشت گردوں کو اپنی سر زمین استعمال نہیں کرنے دیں گے: نواز شریف

وزیراعظم نے افغان وفد سے ملاقات میں کہا کہ دوطرفہ تعلقات کا محور سیاسی رابطوں میں اضافہ، انسداد دہشت گردی اور سلامتی کے شعبوں میں قریبی تعاون، تجارت کا فروغ اور علاقائی تعاون ہو گا۔

پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ اسلام آباد اور کابل دونوں ہی پرعزم ہیں کہ وہ دہشت گردوں کو اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں کرنے دیں گے۔

بدھ کو افغان پارلیمان کے اٹھارہ رکنی وفد نے وزیراعظم نواز شریف سے اسلام آباد میں ملاقات کی۔ یہ وفد ایک غیر سرکاری تنظیم کی دعوت پر پاکستان کا دورہ کر رہا ہے جہاں دونوں ملکوں کے اراکین پارلیمنٹ نے ایک دوسرے سے قریبی تعاون بڑھانے سمیت علاقائی اُمور پر تفصیلی مشاورت کی۔

اُنھوں نے کہا کہ شدت پسندوں کے خلاف آپریشن ’ضرب عضب‘ نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک اور ڈھانچے کو توڑ دیا ہے۔

بعد ازاں بدھ کی سہ پہر وزیراعظم نواز شریف نے افغان صدر اشرف غنی سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا اور خطے کی صورت حال پر بات چیت کی۔

افغان اراکین پارلیمان کے وفد سے ملاقات کے بعد جاری ہونے والے سرکاری بیان کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ دونوں ملک خطے کو پرامن اور خوشحال بنانا چاہتے ہیں۔

افغان وفد نے حال ہی میں پشاور کے ایک اسکول پر ہونے والے مہلک حملے کی مذمت کی۔ وفد کا کہنا تھا کہ امن دونوں ملکوں کے بہترین مفاد میں ہے اور دیرپا امن کے لیے افغانستان پاکستان کے عزم کو اہم سمجھتا ہے۔

بیان کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ افغان صدر اشرف غنی کے دورہ اسلام آباد اور لندن میں ہونے والی افغانستان کانفرنس کے تناظر میں دونوں ملک اپنے تعلقات کو نئی جہت دینے کے لیے پرعزم ہیں۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ دوطرفہ تعلقات کا محور سیاسی رابطوں میں اضافہ، انسداد دہشت گردی اور سلامتی کے شعبوں میں قریبی تعاون، تجارت کا فروغ اور علاقائی تعاون ہو گا۔

پاکستان اور افغانستان کے پارلیمانی وفود کے درمیان ہونے والی ملاقات میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں مثبت پیش رفت کا اعتراف کرتے ہوئے سرحد کے دونوں جانب ہر طرح کی دہشت گردی کی شدید مذمت کی گئی۔

افغان وفد سے ملاقات کرنے والے پاکستانی اراکین پارلیمان میں شامل سینیٹر افراسیاب خٹک نے دو روزہ اجلاس کے اختتام پر صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ دونوں جانب کے قانون سازوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مقاصد کے حصول کے لیے سکیورٹی اداروں میں قریبی تعاون پر زور دیا۔

’’پاکستانیوں نے بھی اپنے خدشات کا اظہار کیا اور افغانوں نے بھی اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ اُدھر فضل اللہ کو نہیں ہونا چاہیئے اور یہاں حقانی کو نہیں ہونا چاہیئے۔ دوسرے کی طرف انگلی اٹھائیں گے اور اپنے گریبان میں نہیں جھانکیں گے تو کیسے اچھے تعلقات بنائیں گے۔ دونوں (ممالک کے قانون سازوں) نے اپنی اپنی حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے تحفظات کو دور کریں۔‘‘

پاکستان کی حکومت اور عسکری قیادت یہ کہہ چکی ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی کی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں افغانستان سے قریبی تعاون کیا جائے گا۔

پشاور میں اسکول پر حملے کے بعد پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کابل کا ہنگامی دورہ کر کے سلامتی سے متعلق اُمور پر قریبی تعاون بڑھانے کے لیے افغان صدر اور وہاں کی عسکری قیادت سے ملاقات کی تھی۔

جب کہ اس کے بعد گزشتہ ہفتے افغانستان کی فوج کے سربراہ جنرل شیر محمد کریمی اور بین الاقوامی اتحادی افواج کے کمانڈر جنرل جان کیمپبل نے بھی پاکستان کا دورہ کیا۔

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے پاکستانی سرحد کے قریب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے جنگجوؤں کے خلاف افغان فورسز کی کارروائیوں کو سراہتے افغانستان اور بین الاقوامی اتحادی افواج کے کمانڈروں کو یقین دہانی کروائی کہ پاکستانی فوج بھی دہشت گردوں کے خلاف مربوط کارروائیوں اور انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے میں اُن سے بھرپور تعاون کرے گی۔

دریں اثناء افغان وفد نے پیر کی شام وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز سے بھی ملاقات کی تھی۔

وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق سرتاج عزیز نے افغان وفد کو بتایا کہ صدر اشرف غنی کا نومبر میں دورہ اسلام آباد دوطرفہ تعلقات میں ایک نئے تاریخی دور کے آغاز میں مددگار ثابت ہوا۔

مشیر خارجہ نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے مشترکہ چینلج کے لیے مل کر کوششیں کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔

ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان پارلیمانی وفود کے تبادلے اور عوامی رابطوں کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ ان میں اضافہ ہونا چاہیئے۔