جنگجوؤں کے خلاف جوابی کارروائی افغان سرزمین پر حملہ نہیں: سرتاج عزیز

سرتاج عزیز

وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کابل کے ساتھ رابطے میں ہے کہ دونوں ملکوں کو مشترکہ دشمنوں کے خلاف مل کر کام کرنا چاہیے۔

وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور سرتاج عزیر کا کہنا ہے کہ پاک افغان سرحد پر افغان سیکورٹی فوررسز اور غیر ملکی افواج کی کم تعداد میں تعیناتی سے شدت پسندوں کو سرحد پار کارروائیاں کرنے کا موقع ملتا ہے۔

منگل کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن تمام عسکریت پسندوں کے خلاف ہے، چاہے وہ مقامی ہوں یا غیر ملکی۔

سرتاج عزیز کے مطابق حال ہی میں اسلام آباد افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر سے مذاکرات میں پاک افغان سرحد پر شدت پسندوں کی نقل و حرکت روکنے کے لیے نظام کو مربوط و موثر بنانے کے لیے ابتدائی طور پر بات چیت بھی کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کابل کے ساتھ رابطے میں ہے کہ دونوں ملکوں کو مشترکہ دشمنوں کے خلاف مل کر کام کرنا چاہیئے۔

Your browser doesn’t support HTML5

جنگجوؤں کے خلاف جوابی کارروائی افغان سرزمین پر حملہ نہیں، سرتاج عزیز

’’اس وقت جو مسائل ہیں کہ جو لوگ یہاں سے گئے ہیں اور پہلے سے بھی وہاں جو گروپ تھے تو وہ جو وہاں سے حملے کرتے ہیں تو ہم جوابی کارروائی کرتے ہیں، تو ہم نے انہیں کہا ہے کہ ہم جب جوابی کارروائی کرتے ہیں تو افغان سرزمین پر نہیں کرتے بلکہ ان لوگوں پر کررہے ہیں‘‘

ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی حملے کی صورت میں پاکستان اپنی سرحد کا تحفظ کرتے ہوئے جوابی کارروائی کرے گا۔

مشیر امور خارجہ کا بیان حال ہی میں اسلام آباد اور کابل کے درمیان عسکریت پسندوں کی پاک افغان سرحد کے دونوں جانب کارروائیوں کو روکنے کے ناکافی اقدامات کے الزامات کے تبادلے کے بعد سامنے آیا۔

افغان حکومت اور وہاں موجود غیر ملکی افواج کہتی آئی ہیں کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں نے پناہ لے رکھی ہے جو کہ افغانستان میں مہلک کارروائیاں کرتے ہیں۔

اسلام آباد کا کہنا ہے کہ کالعدم عسکریت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ فضل اللہ اور دیگر کمانڈر پاکستانی افواج کی کارروائیوں سے بھاگ کر افغانستان میں چھپے بیٹھے ہیں اور سرحد پار کارروائیوں میں ملوث ہیں۔

پاکستان نے شدت پسندوں کے سب سے بڑے اور اہم گڑھ شمالی وزیرستان میں جون کے وسط میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا جس میں فوج کے ترجمان کے مطابق قبائلی علاقے کا ایک بڑا حصہ عسکریت پسندوں سے پاک کرتے ہوئے چھ سو سے زائد جنگجوؤں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔

سلامتی کے امور کے ماہر اور سابق لیفٹینٹ جنرل محمود درانی کا وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہتر روابط و تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔

’’حالانکہ ہم تعاون کرتے آئے ہیں مگر مجموعی طور پر بد اعتمادی رہی ہے۔ سب سے بڑی بات ہے کہ ایک دوسرے سے کھل کر بات کریں اور یہ بات چیت وزیراعظم، وزیر اور آئی ایس آئی کی سطح پر ہونی چاہئے۔ مختلف سطح پر ہمیں رابطے کھولنے چاہیئں اور عوامی سطح پر بھی اس کو بڑھاوا دیا جائے۔ آسان نہیں ہے مگر اس کے بغیر ہمارا گزارا نہیں ہے۔‘‘

افغانستان سے رواں سال کے اواخر تک امریکہ سمیت تمام غیر ملکی افواج کا انخلا مکمل ہو جائے گا اور ماہرین کے مطابق نا صرف پاکستان و افغانستان بلکہ خطے کی سلامتی کے لیے بھی دہشت گردوں کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں کامیابی ناگزیر ہے۔