پشاور اسکول حملے کے بعد شہر کی فضا بدستور سوگوار

پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے میں 132 بچوں سمیت 148 افراد ہلاک ہوئے۔

فوج نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو حملے کا نشانہ بننے والے آرمی پبلک اسکول کا دورہ کروایا۔

فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے میڈیا کو بتایا کہ سات دہشت گرد اس آڈیٹوریم کے اندر گھسے اور زیادہ تر ہلاکتیں اسی جگہ پر ہوئیں۔

پاکستانی تاریخ میں کسی ایک ہی واقعے میں اتنی بڑی تعداد میں بچوں کی ہلاکت کا یہ پہلا واقعہ ہے۔

امریکہ سمیت دنیا بھر سے پشاور اسکول حملے کی مذمت اور اس میں ہونے والے جانی نقصان پر تعزیت کا اظہار کیا گیا۔

حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کرتے ہوئے اسے شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن "ضرب عضب" کا ردعمل قرار دیا تھا۔

پشاور کا لیڈی ریڈنگ اسپتال جہاں اب بھی کئی زخمی زیر علاج ہیں۔

زیر علاج زخمی طالب علم کے رشتے دار اس کی عیادت کر رہے ہیں۔

پشاور سانحہ کے بعد سکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے۔

پشاور آرمی پبلک اسکول میں سکیورٹی فورسز کے اہلکار کھڑے ہیں۔

خواتین حملے میں مرنے والوں کی یاد میں پھول لے کر کھڑی ہوئی ہیں۔

پشاور میں اسکول پر دہشت گردوں کے حملے میں اور ہلاکتوں کے بعد شہر کی فضا جمعرات کو بھی سوگوار ہے۔

متعدد علاقوں میں اب بھی کاروباری سرگرمیاں بند ہیں۔

حکومت نے اس واقعے پر تین روزہ قومی سوگ کا اعلان کر رکھا ہے۔

آڈیٹوریم کا وہ حصہ جو دہشت گردی کا نشانہ بنا۔

پشاور میں اسکول حملے کے خلاف لوگ سراپا احتجاج ہیں۔