رمشا کے خلاف توہین رسالت کا مقدمہ خارج

رمشا مسیح (فائل فوٹو)

دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس نے ذہنی طور پر غیر صحت مند 14 سالہ رمشا مسیح کو ایک عیسائی بستی سے ان الزامات کے بعد گرفتار کیا تھا کہ اُس نے قرآنی صفحات کو نذر آتش کیا۔
پاکستان کی ایک عدالت نے اقلیتی عیسائی برادری سے تعلق رکھنے والی رمشاء نامی لڑکی کے خلاف توہین رسالت کے مقدمے کو خارج کرنے کا حکم صادر کیا ہے۔

ذہنی طور پر غیر صحت مند چودہ سالہ اس عیسائی لڑکی کے وکیل نے بتایا کہ منگل کو مقدمے کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اقبال حمیدالدین نے ان کے موقف کو تسلیم کیا کہ رمشاء کے خلاف الزامات جھوٹے پر مبنی تھے کیونکہ کسی نے اسے قرآنی اوراق جلاتے نہیں دیکھا۔

وکیل طاہر نوید چودھری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چیف جسٹس نے مقدمے کا فیصلہ سناتے وقت اس بات پر زور دیا کہ ایسے حساس معاملات میں جھوٹے الزامات سے پرہیز کیا جائے۔

’’یہ انصاف کی جیت ہے۔ اب رمشاء کے خلاف کوئی بھی مقدمہ نہیں۔‘‘

اُنھو ں نے توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے ’’جھوٹے الزامات‘‘ لگانے والوں کے خلاف ’’موثر اور سخت‘‘ کارروائی کے مطالبات کی تائید بھی کی۔

’’قانون کے تحت صرف زیادہ سے زیادہ 6 ماہ کی قید اور بہت تھوڑا جرمانہ ہے مگر اس پر عمل درآمد ہوتے ہم نے کبھی نہیں دیکھا۔‘‘


دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس نے ذہنی طور پر غیر صحت مند اس چودہ سالہ لڑکی کو ایک عیسائی بستی سے ان الزامات کے بعد گرفتار کیا تھا کہ اُس نے قرآنی صفحات کو نذر آتش کیا۔

لیکن بعدازاں تحقیات کے دوران پولیس حکام پر انکشاف ہوا کہ خالد جدون نامی مقامی مسجد کے ایک امام نے مبینہ طور پر لڑکی کو پھنسانے کے لیے اُس کے خلاف شواہد میں ردوبدل کیا تاکہ عیسائی آبادی کو خوفزدہ کرکے علاقے سے نکال باہر کرنے کی راہ ہموار ہو سکے۔

پولیس نے رمشاء کو تین ہفتوں تک راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید رکھنے کے بعد عدالت کے حکم پر اُسے رہا کردیا تھا۔

مگر عیسائی لڑکی کے خلاف توہین اسلام کے الزامات اور اس کی گرفتاری پر نا صرف پاکستان کے اندر بلکہ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے بھی سخت احتجاج اور اُس کی رہائی کے مطالبات کیے گئے۔

اس بھرپور احتجاجی مہم اور پاکستانی حکومت کی مداخلت کے نیجے میں رمشاء کی ضمانت پر رہائی ممکن ہوئی تھی، اور منگل کوعدالت نے اُس کے خلاف توہین رسالت کے الزامات خارج کرنے کا حکم جاری کردیا۔

پاکستان میں ناقدین توہین رسالت سے متعلق قوانین پر روز اول سے تحفظات اور ان کی منسوخی یا پھر ان میں اصلاحات کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔

ان کا موقف ہے کہ معاشرے کے بااثر افراد خاص طور پر بنیاد پرست مسلمان اس قانون کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں کیونکہ محض الزامات کی بنیاد پر پولیس مبینہ گستاخِ اسلام کو فوری طور پر گرفتار کر کے مقدمہ درج کرنے کی پابند ہوتی ہے۔

بعض اوقات واقعات میں مشتعل ہجوم عدالت کے فیصلے سے پہلے ہی حملہ کر کے لوگوں کو موت کی نیند سلا چکا ہے۔



جدون کے خلاف اس حرکت پر اسلام آباد کی ایک عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے۔