رمشا کیس کی مشترکہ تحقیقات کا مطالبہ

(فائل فوٹو)

تفتیش کو منصفانہ بنانے کے لیے تحقیقاتی ٹیم میں عیسائی اور مسلمان نمائندوں کو شامل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حتمی رپورٹ سے عوام کو بھی با خبر رکھا جائے۔
مقدس اوراق جلانے کے الزام میں زیر حراست 11 سالہ مسیحی لڑکی رمشا کے معاملے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کے مطالبات زور پکڑتے جا رہے ہیں اور پیر کو اسلام آباد میں مسلمان علمائے دین اور عیسائی برادری کے نمائندوں کے ایک مشترکہ اجلاس میں تحقیقاتی عمل کی نگرانی کا فیصلہ کیا گیا۔

بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’پاکستان انٹرفیتھ لیگ‘ کے تعاون سے منعقدہ اجلاس کی صدارت معروف عالم دین حافظ طاہر اشرفی نے کی۔

دونوں مذاہب کے رہنماؤں نے اجلاس کے بعد ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ رمشاء کیس کی تفتیش کو منصفانہ بنانے کے لیے تحقیقاتی ٹیم میں عیسائی اور مسلمان نمائندوں کو شامل کیا جائے اور حتمی رپورٹ سے عوام کو بھی با خبر رکھا جائے۔

حافظ طاہر اشرفی کی سربراہی میں اجلاس



پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی نے اس موقع پر کہا کہ مسیحی خاندانوں کے تحفظات کو دور کیا جانا بھی ضروری ہے۔

’’رمشا کی ذہنی صحت اور عمر کا بھی تعین کیا جائے ... جو مسیحی خاندان خوف کی وجہ سے وہاں سے منتقل ہوئے ان کی بحفاظت واپسی اور مستقبل میں ان کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور متاثرہ خاندانوں کا جو نقصان ہوا ہے اس کا بھی ازالہ کیا جائے۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ اگر طبی رپورٹ سے یہ ثابت ہوا کہ رمشا کا ذہنی توازن درست نہیں تو ان عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے جنھوں نے خوف و ہراس کی فضا پیدا کی اور توہین رسالت کے قانون کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔

عیسائی رہنماء اور ’پاکستان انٹرفیتھ لیگ‘ کے چئیرمین ساجد اسحاق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ملک میں بسنے والے تمام افراد کے اعتماد کی بحالی کے لیے عدم برداشت کے رویوں کے خاتمے کی ضرورت ہے۔

’’جب تک ہم برداشت کا مادہ پیدا نہیں کریں گے اور ایک دوسرے کو تسلیم نہیں کریں گے تو شاید ہم بہت دور چلے جائیں گے۔‘‘

رمشا مسیح نامی 11 سالہ لڑکی کو رواں ماہ اسلام آباد کے ایک مضافاتی علاقے مہرآباد میں پولیس نے اس وقت اپنی حفاظتی تحویل میں لے لیا تھا جب اہل محلہ نے اس پر قرآنی آیات کو نذر آتش کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اس کے گھر کا گھیراؤ کر رکھا تھا۔

زیرحراست کمسن لڑکی ذہنی طور پر بیمار بتائی گئی ہے۔ اس واقعے پر مقامی اور غیر ملکی انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے پاکستانی حکومت کو کڑی تنقید کا سامنا ہے، جب کہ مختلف آزاد خیال ’انتہا پسند‘ حلقوں کی طرف سے توہین رسالت سے متعلق قانون میں اصلاحات کے مطالبات بھی ایک بار پھر زور پکڑ چکے ہیں۔

پاکستانی حکام نے اس معاملے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات اور متاثرہ خاندان کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کر رکھی ہے۔