گوادر کی بندرگاہ اور قابل بھروسہ پڑوسی۔۔۔

Your browser doesn’t support HTML5

انڈی پنڈنس ایوینو: گوادربندرگاہ، کیا واقعی سٹریٹیجک گیم تبدیل ہورہی ہے؟

انڈی پنڈنس ایونیو میں ڈاکٹر سلمان شاہ، ڈاکٹر زبیر اقبال، قمر آغا اور ملک سراج اکبر کی گفتگو

گوادر کی بندرگاہ سے وابستہ امیدیں کتنی حقیقت پسندی پر مبنی ہیں؟ ماہرین کہتے ہیں کہ چین پاکستان کا ایسا پڑوسی ہے، جس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔

اب یہ دیرینہ تعلق معاشی تعلق میں تبدیل ہو رہا ہے، پاکستان کے ذریعے مغربی ملکوں سے تعلق کا قائم ہونا چین کے لیے سٹریٹیجکلی بے حد اہم ہے۔

ماہر اقتصادیات ڈاکٹر سلمان شاہ نے، جو پاکستان کے عبوری وزیر خزانہ بھی رہ چکے ہیں، اردو وی او اے کے پروگرام انڈی پنڈنس ایونیو میں بات کرتے ہوئے کہا کہ گوادر بندرگاہ کا کنٹریکٹ پہلے سنگاپور کو دیا گیا تھا لیکن سنگاپور کا اس منصوبے میں صرف کمرشل مفاد تھا۔

چین اس بندرگاہ سے خود فائدہ اٹھانے میں دلچسپی رکھتا ہے اس لئے وہ زیادہ سرگرم ہے۔ چین ایک طویل مدتی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اس کے پاس دنیا کا سب سے زیادہ زر مبادلہ ہے۔ انفرا سٹرکچر کے شعبے میں تکنیکی مہارت ہے ۔ پاکستان کے لئے اہم یہ ہے کہ یہ بندرگاہ زیادہ سے زیادہ استعمال ہو تاکہ اس سے روزگار کے زیادہ مواقع نکلیں۔

ڈاکٹر زبیر اقبال کا کہنا تھا کہ چین جب کوئی منصوبہ شروع کرتا ہے تو حقیقی انداز میں شروع کرتا ہے۔ اس میں سیاسی معاملات اتنے نہیں ہوتے، جتنے معاشی اور کاروباری معاملات شامل ہوتے ہیں۔ اس منصوبے پر عمل درآمد میں چیلنجز کی نوعیت مقامی ہے کہ پاکستان کس حد تک سیکورٹی حالات تبدیل کر سکتا ہے کہ انفرا سٹرکچر پر ہونے والی سرمایہ کاری محفوظ رہے۔ لیکن زبیر اقبال کے بقول، عام طور پر معاشی بہتری آنے سے علاقائی سیکورٹی بہتر ہو جاتی ہے ۔

’’یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اس وقت ایشیا میں ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ کے نام سے گیارہ ملکوں کا ایک نیا اتحاد قائم ہوا ہے، جس میں امریکہ شامل ہے لیکن چین نہیں۔ اس لئے چین کے لئے دوسرے طریقے ڈھونڈنا لازمی تھے، جن سے اسے تجارتی فوائد ملیں۔ امید یہی کرنی چاہئے کہ یہ سرمایہ کاری ہوگی۔ خواہ اتنی نہ ہو، جتنے کی امید کی جا رہی ہے لیکن اس کے اثرات دور رس ہوں گے‘‘۔

سیکورٹی امور کے بھارتی تجزیہ کار قمر آغا نے کہا کہ پاکستان کی ترقی سے بھارت کو خوشی ہوگی۔ لیکن جب ترقی کے نام پر فوجی سرگرمیوں کا استعمال کیا جاتا ہے تو ہمسایہ ملکوں میں تشویش کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ اس وقت سب ملکوں کو فکر ہے کہ چین گوادر کی بندرگاہ کا فوجی استعمال کر سکتا ہے۔ اس بندرگاہ کو بھارت کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے جس علاقے سے گوادر بندرگاہ کو جوڑنے والی سڑکیں یا ریلوے لائن گزرے گی، وہاں امن و امان کے مسائل ہیں۔

قمر آغا کے بقول چین کے اگر اس خطے میں فوجی مقاصد نہ ہوتے تو وہ کبھی اتنی بڑی سرمایہ کاری نہ کرتا۔ چین پورے بحر ہند میں جس طرح اپنے آپ کو منوانے کی کوشش کر رہا ہے، وہ بھی بھارت کے لئے تشویش کی بات ہے ۔ اس کے علاوہ گوادر سے آنے والی جو سڑک پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے گزر کر کاشغر جائے گی، اس پر بھارت کو شدید تحفظات ہیں۔

ڈاکٹر زبیر اقبال نے کہا کہ گوادر کی بندرگاہ سے چین کے مفادات صرف معاشی نہیں ہیں، لیکن ان کے بقول، یہ سمجھنا پڑے گا کہ بھارت کے دباؤ پر سری لنکا نے چین کو اپنی بندرگاہ استعمال کرنے سے منع کر دیا ہے۔ اس کے بعد چین کے پاس بحیرہ عرب میں گوادر کی بندرگاہ پر سرگرمیاں تیز کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ ڈاکٹر زبیر اقبال کا کہنا تھا کہ جب بھارت اپنے زیر انتظام کشمیر میں جو چاہے منصوبہ شروع کر سکتا ہے تو پاکستان بھی کر سکتا ہے۔ یہ ایسے مسائل ہیں جنہیں سیاسی افہام و تفہیم سے حل کیا جاتا ہے ان کے خلاف سیاسی نعرے بازی نہیں کرنی چاہئے۔

ملک سراج اکبر، جو ایک آن لائن جریدے بلوچ حال کے مدیر اور ہارورڈ کینیڈی سکول کے ایڈورڈ میسن فیلو ہیں، کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں زبردست احساس محرومی ہے۔ جو انفرا سٹرکچر بلوچستان میں قائم ہو رہا ہے اس سے بلوچ عوام کو فائدہ نہیں ہوگا۔ گیارہ سال سے بلوچستان میں فوجی آپریشن اور انفرا سٹرکچر پر حملے ہو رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں طرف سے ڈائیلاگ کا آغاز ہو۔ مکران ڈویژن، جہاں پر گوادر پورٹ ہے، شورش کا مرکز بن چکا ہے۔ پہلے سے موجود انفرا سٹرکچر اور تعلیمی ادارے تباہ ہو چکے ہیں۔ 2005ء میں مشرف حکومت کو مشورہ دیا گیا تھا کہ بلوچستان کے نوجوانوں کو بڑے اداروں میں تربیت دلوائی جائے۔ انہیں پورٹ قاسم لے جایا جائے تاکہ گوادر کی بندرگاہ میں بلوچ نوجوانوں کے لئے بھی مواقع پیدا ہوں۔

’’اگر بلوچ نوجوانوں کو مواقع نہیں ملتے تو وہ گوادر پورٹ کو اسلام آباد اور چین کی طرف سے نو آبادی قائم کرنے کی کوشش تصور کریں گے۔ ضروری ہے کہ بلوچ نوجوانوں کو اس منصوبےکا حصہ بنانے کے لئے نوکریاں دی جائیں۔ ان میں اونر شپ کا احساس پیدا کیا جائے‘‘۔

ڈاکٹر سلمان شاہ کا کہنا تھا کہ ہر پاکستانی چاہتا ہے کہ بلوچستان کو گوادر کی بندرگاہ سے سب سے زیادہ فائدہ پہنچے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد بلوچستان کو صوبائی خودمختاری مل چکی ہے۔ پورے خطے میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے، جس کے آئین میں اتنی صوبائی خودمختاری دی گئی ہو۔ اس وقت بلوچستان کی منتخب حکومت بھی خواہش مند ہے کہ وہ اس منصوبے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں۔ یقیناً اس منصوبے سے بہت سے مواقع پیدا ہوں گے۔ لیکن جنرل راحیل شریف نے وارننگ دی ہے کہ کئی غیرملکی ایجنسیاں بلوچستان میں سرگرم ہیں۔ اس وقت جو زیادہ سرگرمیاں نظر آرہی ہیں وہ بھی گوادر منصوبے کو روکنے کے لئے ہیں۔ لیکن طویل مدت میں اس منصوبے کے فوائد بلوچ آبادی کو بھی جائیں گے اور دیگر صوبوں سے آکر آباد ہونے والوں کو بھی۔ اہم بات یہ کہ ترقیاتی کام تیزی سے مکمل کئے جائیں۔

اس سوال کے جواب میں کہ گوادر سے کاشغر جانے والی سڑک کا مجوزہ روٹ صرف سندھ اور پنجاب سے کیوں گزرے گا؟

ڈاکٹر زبیر اقبال کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ صرف تکنیکی وجوہات پر کیا گیا۔ تاہم ان کے بقول، جب ایسے معاشی روٹ بنتے ہیں تو ارد گرد کے علاقوں کے ساتھ رابطے کے لئے سڑکیں اور نقل و حمل کے ذرائع پیدا ہو جاتے ہیں۔

ڈاکٹر زبیر اقبال کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں پچھلے چھ، سات سال سے یہ پالیسی رہی ہے کہ دو سو سے ایک ہزار طلباء بلوچستان سے باہر تعلیمی اداروں میں لائے جاتے ہیں تاکہ انہیں سائنس اور انجینئیرنگ کے مضامین میں تربیت دی جائے۔ ایک وقت آئے گا جب بلوچستان میں اتنا انسانی سرمایہ اور تکنیکی مہارت ہوگی اور گوادر کی بندرگاہ کی صورت میں ایسا مرکز بھی ہوگا جہاں وہ تکینکی اور انسانی سرمایہ کام آئے تو قدرتی طور پر ایک دوسرے پر انحصار بڑھے گا اور بلوچستان کو اس سے فائدہ پہنچے گا۔ لیکن ابھی اصل سوال یہ ہے کہ عمل درآمد کیسے ہوگا۔

ملک سراج اکبر کا کہنا تھا کہ بلوچ نوجوانوں کو تکینیکی تعلیم فراہم نہیں کی جا رہی۔ ان کا کہنا تھا کہ گوادر پورٹ پر سرگرمیاں شروع ہوئے دس بارہ سال ہو چکے ہیں۔ لیکن بندرگاہ کے انفرا سٹرکچر اور انتظام میں کہیں مقامی بلوچ شامل نہیں ہیں۔ گوادر کا منصوبہ شروع ہونے کے دس سال بعد بھی اگر بلوچ تکینکی ماہرین کی کوئی تربیت یافتہ ٹیم نہیں ہے ، تو اس کا مطلب یہی ہے کہ حکومت کی پالیسی میں خامیاں ہیں۔ امن و امان کی صورتحال کی بہتری کے لئے بھی مقامی بلوچوں کی نمائندگی ضروری ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مقامی آبادی کو گوادر کی بندرگاہ کے معاملات چلانے اور شرپسندی کے خلاف کارروائیوں میں شامل کیا جائے۔