کُرم ایجنسی میں آپریشن مکمل، بے دخل خاندانوں کی واپسی کا اعلان

کُرم ایجنسی میں آپریشن مکمل، بے دخل خاندانوں کی واپسی کا اعلان

پاکستان نے قبائلی علاقے کْرم ایجنسی میں ’’دہشت گردوں‘‘ کے خلاف فوجی آپریشن کو کامیاب قرار دیتے ہوئے اس کے اختتام اور لڑائی کے باعث نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کی رواں ماہ کے آخرسے گھروں کو واپسی کا عمل شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

فوجی حکام کا کہنا ہے کہ جون کے اواخر میں وسطی کْرم میں ’’کوہِ سفید‘‘ کے نام سے شروع کیے گئے اس آپریشن کا ہدف وہ ’’دہشت گرد اور شرپسند‘‘ تھے جو خودکش بم دھماکوں، فرقہ وارانہ قتل وغارت اور اغوا برائے تاوان سمیت دیگر جرائم میں ملوث تھے۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی طرف سے جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے آپریشن کی کامیابی سے تکمیل پر جمعرات کو افغان سرحد سے ملحقہ اس علاقے کا دورہ کر کے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ’’مضبوط عزم کا اظہار اورقربانیاں‘‘ دینے والے اپنے فوجیوں سے خطاب بھی کیا۔

سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ فوجی آپریشن مقامی آبادی اورکْرم ایجنسی کی سیاسی انتظامیہ کے مطالبے پر شروع کیا گیا تھا۔ ’’وسطی کْرم سے دہشت گردوں کا خاتمہ ٹل اور پارہ چنار کو ملانے والی سڑک پر آمد و رفت کی بحالی کو یقینی بنائے گا جس سے خطے میں دیرپا امن کے لیے مری سمجھوتے پر عمل درآمد کے لیے ماحول سازگار ہو گا۔‘‘

مری سمجھوتہ متحارب سنی اور شیعہ قبائل کے درمیان تین سال قبل طے پایا تھا اور اس کا مقصد خطے میں جاری خونریز فرقہ وارانہ جھڑپوں کا خاتمہ تھا۔

پاکستانی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ ملحقہ قبائلی علاقوں میں آپریشنز سے فرار ہو کر وسطی کْرم کی پہاڑیوں میں پناہ لینے والے دہشت گردوں اور ماموزئی کے راستے شمالی وزیرستان اور وادی تیرہ کے درمیان اْن کی آمد و رفت کو ختم کرنا آپریشن کوہ سفید کے بڑے مقاصد تھے۔

لیکن سیاسی انتظامیہ کے ساتھ رواں ہفتے ہونے والے ایک جرگے میں قبائلی رہنماوں نے فوجی آپریشن کو صرف وسطی کْرم تک محدود رکھنے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور اْن کا موقف تھا کہ درحقیقت لوئر کرم میں موجود دہشت گردوں کا ڈھانچہ اَپر کْرم میں گزشتہ چار سال سے جاری انسانی بحران اور خطے میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والوں کی ہلاکت کا ذمہ دار ہے۔

اطلاعات کے مطابق ستمبر کے اوائل میں ایک اور جرگہ ہوگا جس میں مری سمجھتوے پر عمل درآمد کا جائزہ لیا جائے گا اور توقع ہے کہ فریقین میں اتفاق رائے کی صورت میں ٹل اور پارہ چنار سڑک پر بلا روک ٹوک آمد و رفت کو یقینی بنانے کے لیے ضمانتیں دی جائیں گی۔

حکام کے بقول اْس وقت فرنٹئر کور کی نگرانی میں اس سڑک پر صرف محدود ٹریفک کی اجازت دی جائے گی۔

حکام کا کہنا ہے کہ فوجی آپریشن میں لگ بھگ 200 عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا جب کہ اس دوران 11,000 خاندانوں نے نقل مکانی کی۔

فاٹا میں آفات سے نمٹنے کے لیے قائم ادارے، ایف ڈی ایم اے، کے ڈائریکٹر جنرل ارشد خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ بے دخل خاندانوں کو بتا دیا گیا ہے کہ وہ 25 یا 26 اگست سے اپنے گھروں کو واپس جانے کی تیاری کریں کیونکہ اْن کے 12 دیہاتوں کو فوج نے محفوظ قرار دے دیا ہے۔

اْنھوں نے کہا کہ ابتدائی مرحلے میں نقل مکانی کرنے والوں کے لیے لوئر کرم میں قائم کردہ ’نیو درانی کیمپ‘ سے لگ بھگ 700 خاندانوں کو واپس بھیجا جائے گا جن کے لیے مفت ٹرانسپورٹ کا بندوبست ایف ڈی ایم اے کی ذمہ داری ہو گی۔

لیکن ارشد خان نے اْن 20,000 سے زائد خاندانوں کے مستقبل کے بارے میں کچھ کہنے سے گریز کیا جو اطلاعات کے مطابق کْرم ایجنسی میں طویل عرصے سے جاری شیعہ سنی فرقہ وارانہ فسادات کے باعث گھر بار چھوڑ کر صوبہ خیبر پختوان خواہ کے اضلاع میں اپنے رشتہ داروں یا پھر کرائے کے مکانات پر رہنے پر مجبور ہیں۔

دفاعی تجزیہ کار اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ بریگیڈئر اسد منیر کا کہنا ہے کہ وسطی کرم میں ریاست کی عملداری ناگزیر تھی کیونکہ دوسری صورت میں اگر کسی مرحلے پر شمالی وزیرستان میں فوجی آرپریشن شروع کیا جاتا تو عسکریت پسند فرار ہو کر کْرم اور اورکزئی ایجنسیوں میں پناہ لے لیتے جو حکام کے لیے ایک نیا چیلنج بن سکتا تھا۔