پاکستان کی حکومت نے افغانستان کی دو اہم وزارتوں پر پاکستان مخالف شہرت رکھنے والے رہنماؤں کی تعیناتی پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان کے وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے اپنی ایک ٹوئٹ میں افغانستان کے نامزد وزیرِ داخلہ امراللہ صالح کے پاکستان کے خلاف سخت مؤقف پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ "آپ کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ کیا آپ پاکستان کو ایک شراکت دار سمجھتے ہیں یا اپنی حکومت کی ناکامیوں کا ذمہ دار ٹہرانا چاہتے ہیں۔"
فواد چودھری نے نامزد افغان وزیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ حقیقت کی دنیا میں آئیں اور خوف زدہ ذہن کی پیداوار وسوسوں سے چھٹکارا پائیں۔
Trivializing the threat of ISIS is to live in cukoland,the new Afghan interior minister needs a reality check.Decide if you want Pakistan as a partner or as a scapegoat for your own govt’s failures. Mr. Minister!Time to get real and give up phantom thoughts from a paranoid mind
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) December 24, 2018
فواد چودھری نے یہ ٹوئٹ نامزد افغان وزیر کے اس ٹوئٹ کے جواب میں کی ہے جس میں انہوں نے پاکستان کے خفیہ ادارے کو 'آئی ایس آئی' کو افغانستان کے لیے داعش سے بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔
واضح رہے کہ افغان صدر اشرف غنی نے اتوار کو پاکستان کے بارے میں سخت مؤقف رکھنے والے دو افغان رہنماؤں کو اپنی کابینہ میں شامل کرنے اور انہیں دو اہم وزارتیں سونپنے کا اعلان کیا تھا۔
صدر غنی نے امراللہ صالح کو افغانستان کا نیا عبوری وزیرِ داخلہ اور اسد اللہ خالد کو عبوری وزیرِ دفاع تعینات کیا ہے۔ دونوں رہنماؤں کا تقرر افغان پارلیمان کی منظوری سے مشروط ہوگا۔
All of my Afghan compatriots & international experts of terrorism would agree with me that the real threat is the ISI not the tiny ISIS-K. Watch the ISI & the ISIS-K will vanish by itself. Plz ask the @CIA for confirmation. At least 30 million plus Afg know who the enemy is. https://t.co/LTD83RYOY5
— Amrullah Saleh (@AmrullahSaleh2) December 22, 2018
ان دونوں افغان رہنماؤں کا شمار پاکستان کے سخت ناقدین میں ہوتا ہے اور ان کا الزام رہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں ریاستی دہشت گردی میں ملوث ہے۔
یہ دونوں افراد ماضی میں افغانستان کے خفیہ ادارے 'این ڈی ایس' کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں اور پاکستان پر تواتر سے طالبان عسکریت پسندوں کی حمایت کا الزام عائد کرتے ہوئے اسے دہشت گردی کی معاونت کرنے والے ممالک میں شامل کرنے کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایسے وقت میں جب افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان براہِ راست مذاکرات ہو رہے ہیں اور پاکستان ان مذاکرات کے انعقاد کا کریڈٹ لے رہا ہے، پاکستان مخالف افغان رہنماؤں کا اہم وزارتوں پر تقرر مذاکراتی عمل پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔