2014ء میں پچھلے برس کی نسبت ڈرون حملوں میں 32 فیصد کمی آئی: رپورٹ

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان میں گزشتہ سال 26 خودکش حملوں سمیت تشدد کے 1200 سے زائد واقعات ہوئے جن میں 1723 افراد ہلاک ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق یہ تعداد بھی 2013ء کی نسبت 30 فیصد کم ہے۔

پاکستان میں گزشتہ سال مشتبہ امریکی ڈرون حملوں، دہشت گردانہ واقعات اور ان میں ہونے والی اموات میں سال 2013 کی نسبت 30 فیصد سے زائد کمی دیکھی گئی ہے۔

یہ انکشاف سلامتی کے امور سے متعلق ایک غیر سرکاری ادارے 'پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز' نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال پاکستان کے شمال مغرب میں 21 ڈرون حملے ہوئے جو کہ 2013 کی نسبت 32 فیصد کم تعداد ہے اور ان حملوں میں 144 افراد ہلاک اور 29 زخمی ہوئے۔

ایک دہائی سے زائد عرصے سے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کو ڈرون طیاروں سے نشانہ بنائے جانے کا سلسلہ جاری ہے اور پاکستان ان کارروائیوں کو ملکی خودمختاری و بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ان کی بندش کا مطالبہ بھی کرتا رہا ہے۔

گزشتہ سال تقریباً چھ ماہ تک ڈرون کارروائیوں میں تعطل رہا جس کی وجہ پاکستانی حکومت کا شدت پسندوں کے ساتھ مذاکراتی عمل کا سلسلہ بتائی جاتی ہے۔

مذاکرات بے نتیجہ ثابت ہونے پر جون 2014 میں پاکستانی فوج نے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ملکی و غیر ملکی شدت پسندوں کےخلاف بھرپور کارروائی شروع کی تھی اور چھ ماہ کے تعطل کے بعد جولائی میں ڈرون کی کارروائیاں بھی بحال ہوتی نظر آئیں۔

امریکہ ڈرون حملوں کو انسداد دہشت گردی کی جنگ میں ایک مؤثر ہتھیار گردانتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں کی ایک بڑی تعداد کو ہلاک کیا گیا۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے سربراہ عامر رانا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں گزشتہ سال ڈرون حملوں میں کمی کی وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ اس کی ایک وجہ سے پاکستانی فوج کی شدت پسندوں کے خلاف کارروائی بھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ امریکہ کے لیے خطرہ تصور کیے جانے والے شدت پسندوں کا ان علاقوں سے کہیں اور منتقل ہو جانا بھی ہے۔

"بہت سارے جو القاعدہ کے لوگ تھے وہ اس خطے سے (باہر) منتقل ہو گئے ہیں وہ یا تو شام اور عراق چلے گئے ہیں یا وہ یمن کی طرف نکل گئے ہیں اور وہ دہشت گرد جن سے امریکہ کی اندرونی سلامتی کو خطرہ تھا وہ یہاں سے منتقل ہو گئے ہیں"۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان میں گزشتہ سال 26 خودکش حملوں سمیت تشدد کے 1200 سے زائد واقعات ہوئے جن میں 1723 افراد ہلاک ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق یہ تعداد بھی 2013ء کی نسبت 30 فیصد کم ہے۔

پاکستانی فورسز نے ملک بھر میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں جب کہ گزشتہ ماہ پشاور کے ایک اسکول پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد ان میں مزید تیزی آئی ہے۔

حکام یہ کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردوں کو ملک کے کسی بھی کونے میں چھپنے کی جگہہ نہیں دی جائے گی اور ان کے حامیوں کے خلاف بھی قانون حرکت میں آئے گا۔