’’تعلیم کی ترقی کے لیے جائزوں کی نہیں ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے‘‘

学生们2012年12月31日在印度艾哈迈达巴德一个悼念在新德里被轮奸致死的一名女子的烛光守夜祈祷中手持蜡烛。

’’پاکستان ہنگامی تعلیم‘‘ کے عنوان سے جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر حالات یہی رہے تو بلوچستان تعلیم تک سو فیصد رسائی بائیسویں صدی جب کہ خیبر پختوں خواہ میں 2064ء، سندھ میں 2049ء اور پنجاب میں 2041ء میں ہی حاصل ہو پائے گی۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان ایجوکیشن ٹاسک فورس کی طرف سے شعبہ تعلیم میں ہنگامی صورت حال کے اعلان اور شعبے کی ترقی کے عزم کے باوجود بھی خاطر خواہ بہتری کی توقع نہیں کررہے۔

سرکاری عہدیداروں اور نجی ماہرین پر مشتمل پاکستان ایجوکیشن ٹاسک فورس کی طرف سے رواں ہفتے جاری کی جانے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غربت ، سکولوں اور اساتذہ کی کمی، وسائل کے قفدان سمیت دیگر وجوہات کی بنا پر پاکستان میں دو کروڑ پچاس لاکھ بچے تعلیم حاصل کرنے کے بنیادی آئینی حق سے محروم ہیں۔

’’پاکستان ہنگامی تعلیم‘‘ کے عنوان سے جاری ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر حالات یہی رہے تو بلوچستان تعلیم تک سو فیصد رسائی بائیسویں صدی جب کہ خیبر پختوں خواہ میں 2064ء، سندھ میں 2049ء اور پنجاب میں 2041ء میں ہی حاصل ہو پائے گی۔

وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں اتحاد برائے تعلیم کی ایک سینئرعہدیدار زہرہ ارشد نے کہا کہ رپورٹ میں صرف مسائل کی نشان دیہی کی گئی ہے جب کہ یہ قانون سازوں کی ذمے داری ہے کہ وہ ان کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔

کونسل فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشیٹوز کے سربراہ مختار احمد نے کہا کہ پاکستان میں نچلی سطح پر وہ استطاعت، ڈھانچہ اور افرادی قوت ہی موجود نہیں جو تعلیم کی تیز رفتار ترقی میں مدد دے لہذا اگر اسے بہترنا بنایا گیا تو تعلیم کے بجٹ بڑھا کر بھی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان بھر میں سرکاری اسکولوں میں سے صرف چھتیس فیصد ایسے ہیں جہاں بنیادی سہولتیں موجود ہیں اور ٹاسک فورس۔

’’تعلیم کی ترقی کے لیے جائزوں کی نہیں ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے‘‘

’’صرف 62 فیصد اسکولوں میں لیٹرین ہے، 35 فیصد میں بجلی ہے، 65 فیصد میں پینے کا پانی دستیاب ہے۔ اس کے علاوہ تیس ہزار اسکول ایسے ہیں جو یا تو خطرناک حالت میں ہیں یا انھیں مرمت درکار ہے۔‘‘

ٹاسک فورس کی شریک چیئرپرسن اور حکمران پاکستان پیپلز پارٹی کی سینئر ممبر شہناز وزیر علی نے کہا ہے کہ یہی بدحالی بچوں کو تعلیم سے دور رکھے ہوئے ہے۔

شہناز وزیر علی بھی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ صرف مالی وسائل ہی نہیں بلکہ ایک پختہ اور اجتماعی عزم بھی نہایت ضروری ہے اور ان کے مطابق رپورٹ کے اجرا کا مقصد بھی یہی ہے کہ حکومت ،عدلیہ، فوج اور میڈیا سمیت معاشرے کے ہر طبقے کو متحرک کیا جائے تاکہ اس شعبے کی بدحالی کو دور کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کردار ادا کریں۔