الیکشن کمیشن کی استعداد کار پر سیاسی جماعتوں کے خدشات

الیکشن کمیشن

الیکشن کمیشن کے رویے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ادارہ کمزور ہے اور ممکن ہے کہ آئندہ انتخابات کا انعقاد شفاف طریقے سے نہ کر سکے۔
انتخابات جیسے جیسے قریب آ رہے ہیں الیکشن کمیشن کے کردار اور اس کی تشکیل سے متعلق سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور اس ادارے کی تحلیل کے مطالبات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن پر الزام لگایا ہے کہ ان کی شکایات کے باوجود کمیشن نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے سرکاری فنڈز اور وسائل کو آئندہ انتخابات سے قبل اپنی غیر اعلانیہ انتخابی مہم کے لیے استعمال کرنے کے واقعات کا اب تک کوئی نوٹس نہیں لیا اور نہ ہی کوئی کارروائی کی ہے۔ اس لیے عمران خان کی جماعت نے کمیشن کی تشکیل نو کا مطالبہ کیا ہے۔

جماعت کے مرکزی رہنما حامد خان نے وائس آف امریکہ سے بدھ کو گفتگو میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کے رویے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ادارہ کمزور ہے اور ممکن ہے کہ آئندہ انتخابات کا انعقاد شفاف طریقے سے نہ کر سکے۔

’’اگر یہ (اراکین الیکشن کمیشن) متعلقہ حکومتوں کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتے تو مستعفی ہو جائیں ورنہ اس صورت حال میں عوام سے کیے گئے شفاف انتخابات کے وعدے پر عمل ہونا ممکن نہیں۔‘‘

آئین میں 20 ویں ترمیم کے بعد حکومت کے پاس الیکشن کمیشن کے کسی رکن کو ہٹانے کے اختیارات نہیں ہیں۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے حوالے سے ان کی جماعت سپریم کورٹ سے بھی رجوع کر سکتی ہے۔

دوسری جانب پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت پہلے ہی تحریک منہاج القران کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کے الیکشن کمیشن کی تحلیل کے مطالبے پر ان سے مذاکرات کر رہی ہے اور اس سلسلے میں حکومت نے آئینی ماہرین سے بھی مشاورت کی ہے۔

آئینی و قانونی ماہر ایس ایم ظفر نے حال ہی میں وزیر قانون کی درخواست پر انہیں اس سلسلے میں اپنی آراء سے آگاہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل میں آئینی سقم موجود ہے کیونکہ کمیشن کے اراکین اپنی تعیناتی کی توثیق کے لیے پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔

’’یہ پارلیمانی کمیٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو جانچیں کہ آیا ان اراکین میں یہ صلاحیت اور جذبہ موجود ہے کہ وہ یہ اہم ذمہ داری اس موجودہ صورت حال میں بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔‘‘


الیکشن کمیشن کے سیکرٹری اشتیاق احمد نے بدھ کو ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ موجودہ کمیشن کے ممبران پانچ سال تک اپنے عہدے پر رہیں گے اور آئین و قانون کے تحت کمیشن کو تحلیل نہیں کیا جا سکتا۔

حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) نے رواں ہفتے الیکشن کمیشن کی تحلیل کے مطالبے کی مخالفت کرتے ہوئے اسلام آباد میں علامتی دھرنا دیا تھا۔