پاکستان: اعلیٰ سطحی اجلاس میں افغانستان سے متعلق اُمور پر غور

افغان صدر اشرف غنی نے وطن واپسی پر کابل میں ایک بیان میں کہا تھا کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا عمل آنے والے ہفتوں میں شروع ہو سکتا ہے۔

پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کی سربراہی میں جمعہ کو ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں افغانستان سے متعلق اُمور اور پاکستان کی داخلی سلامتی کے معاملات پر غور کیا گیا۔

اس اہم اجلاس میں فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے علاوہ انٹیلی جنس ایجنسی ’آئی ایس آئی‘ کے ڈائریکٹر جنرل رضوان اختر بھی شریک تھے۔

پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے افغانستان سے متعلق کیا بات چیت کی، اس کی تفصیلات تو جاری نہیں کی گئیں لیکن یہ اہم اجلاس ایسے وقت ہوا جب رواں ماہ ہی اسلام آباد میں افغانستان کے بارے میں منعقدہ ’ہارٹ ایشیا کانفرنفس‘ میں افغان مصالحتی عمل کی بحالی پر اتفاق کیا گیا تھا۔

افغان صدر اشرف غنی نے وطن واپسی پر کابل میں ایک بیان میں کہا تھا کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا عمل آنے والے ہفتوں میں شروع ہو سکتا ہے۔

واضح رہے کہ اسلام آباد میں ’ہارٹ آف ایشیا‘ کانفرنس کے موقع پر ایک چار فریقی ملاقات بھی ہوئی تھی جس میں وزیراعظم نواز شریف اور افغانستان کے صدر اشرف غنی کے علاوہ چین کے وزیر خارجہ وانگ ژی اور امریکہ کے نائب وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے بھی شرکت کی تھی۔

پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے جمعرات کو ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں کہا تھا کہ یہ چار ملکی بات چیت افغانستان میں امن کے حوالے سے بہت اہم تھی۔

حال ہی میں پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان میں امن کے لیے اُن کا ملک سنجیدہ ہے اور مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا حل چاہتا ہے۔

وزیراعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ طالبان پر کسی حد تک پاکستان کا اثر و رسوخ ہے جسے استعمال کرتے ہوئے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کی جائے گی۔

پاکستان کی میزبانی میں رواں سال سات جولائی کو اسلام آباد کے قریب سیاحتی مقام مری میں افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان براہ راست مذاکرات ہوئے تھے۔ ان مذاکرات میں چین اور امریکہ کے نمائندوں نے بطور مبصر شرکت کی تھی۔

امن مذاکرات کے اسی سلسلے کا ایک اور دور جولائی کے اواخر میں پاکستان ہی میں ہونا تھا لیکن طالبان کے سربراہ ملا عمر کی موت کی خبر منظر عام پر آنے کے بعد یہ عمل موخر کر دیا لیکن بعد میں قیادت کے مسئلے پر طالبان کے مختلف دھڑوں میں اختلافات اور افغانستان میں طالبان کی کارروائیوں میں تیزی کے بعد یہ عمل تعطل کا شکار ہو گیا۔