نقل مکانی کرنے والوں میں وبائی امراض پھیلنے کا خطرہ

بین الاقوامی امدادی تنظیم آکسفیم کے پاکستان میں سربراہ جبار احمد خان نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں اس امدادی سرگرمی کو ایک بڑا چلینج قرار دیا۔

نواز شریف انتظامیہ کے سینئیر عہدیداروں کے مطابق شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے رجسٹرڈ افراد کی تعداد 10 لاکھ کے قریب پہنچ گئی ہے جن میں سے بیشتر قبائلی علاقے سے متصل صوبہ خیبرپختونخواہ کے قریبی اضلاع میں قیام پذیر ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اتنی بڑی آبادی کی خوارک، صحت اور دیگر ضروریات کو پورا کرنے کے لیے حتی الوسع کوشش کی جارہی ہے۔

بین الاقوامی امدادی تنظیم آکسفیم کے پاکستان میں سربراہ جبار احمد خان نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں اس امدادی سرگرمی کو ایک بڑا چلینج قرار دیتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر صحت سے متعلق شعبوں میں اقدامات نا کیے گئے تو ان شہروں میں مختلف بیماریاں بالخصوص پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں وبا کی صورت اختیار کر سکتی ہیں۔

’’لوگ اسکولوں میں رہ رہے ہیں، جیسے جو خالی جگہ ملی وہیں رہ گیا ہے۔ جو افورڈ کر سکتے تھے وہ کرایے کے گھروں میں چلے گئے۔ تو اگر ایک لیٹرین یا پانی مہیا کرنے کا نظام 10 لوگ استعمال کرتے تھے مگر اب اسی کو 30 سے 40 لوگ تو وہ جلد آلودہ ہو گا اور بیماریاں پھیلنے کا خطرہ ہے۔‘‘

عسکریت پسندوں کی پابندی کے باعث شمالی وزیرستان میں گزشتہ 2 سالوں سے بچوں کو پولیو سمیت مختلف بیماریوں سے بچاؤ کے قطرے نہیں پلائے جا سکے اور آکسفیم کے عہدیدار کے مطابق جن اضلاع میں یہ اب رہائش پذیر ہیں وہاں بھی ایسی مہم زیادہ بہتر انداز میں نہیں چلائی گئیں۔

نواز انتظامیہ نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کی امداد کے لیے عالمی سطح پر کوئی اپیل نا کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے اور حکومت میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اگر کوئی ملک خود سے مدد کرنا چاہے تو ان کی امداد سے انکار نہیں کیا جائے گا۔

اقوام متحدہ کے مطابق القاعدہ سے منسلک عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی سے بے دخل ہوئی آبادی میں 74 فیصد عورتیں اور بچے ہیں۔

جبار احمد خان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی امدادی ادارے اس قسم کی صورتحال میں کام کرنے کی زیادہ مہارت اور تجربہ رکھتے ہیں اور ان کی زیادہ سے زیادہ اور جلد شرکت حکومت کی امدادی سرگرمیوں کو تیز اور مزید موثر بنا سکتی ہیں۔

’’عورتوں یہ جو ضروریات ہیں وہ کسی کو بتا سکیں اور اگر پوری ہو تو اس عمل، فیصلے میں شریک ہوں۔ ہمارے معاشرے میں بچے کی ذمہ داری عورت پر ہوتی ہے تو پھر انہیں زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔‘‘

شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں میں صحافی حاجی مجتبیٰ کا خاندان بھی شامل ہے۔ بنوں شہر سے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا۔

’’24 گھنٹوں میں بھی نمبر نہیں آتا اور جو امداد ملتی ہے وہ ایک ہفتے سے زیادہ نہیں چل سکتی کہ ہر گھر میں 10 سے 15 افراد ہیں۔ تعلیم کے بارے میں کوئی اعلان نہیں ہوا۔ اسپتالوں میں وہی عملہ ہے۔ کوئی ڈاکٹروں یا کسی اور چیز کا اضافہ نہیں۔‘‘

صوبہ خیبرپختونخواہ حکومت کا کہنا ہے کہ انہیں نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کی امداد کے لیے فنڈز کی کمی کا سامنا ہے اور حال ہی میں اس کی طرف سے بین الاقوامی برادری کو انسانی بنیادوں پر ان سرگرمیوں میں بھرپور کردار ادا کرنے کی اپیل کی تھی۔

نواز انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں پر پابندی ان کی سیکورٹی کی بنیاد پر عائد کی گئی ہے تاہم ضرورت پڑنے پر انہیں امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے گی۔