پاکستانی کشمیر کے سرحدی علاقوں میں خوشی کی لہر

  • روشن مغل
وادی نیلم کے لوگوں کا کہنا تھا کہ پاک بھارت وزرائے اعظم کی طرف سے لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کم کرنے کے اقدامات پر اتفاق سے علاقے میں امن کو فروغ حاصل ہوگا۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سرحدی علاقوں میں رہنے والوں نے لائن آف کنٹرول پر پاک بھارت کشیدگی ختم کرنے پر اتفاق کے اقدام کا خیر مقدم کرتے ہوئے مسرت کا اظہار کیا ہے۔

کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول پر رواں سال پاکستان اور بھارت کی فوجوں کی طرف سے ایک دوسرے کے علاقے پر فائرنگ و گولہ باری کے واقعات سے سرحدی علاقوں کے رہائشی سخت تشویش میں مبتلا تھے اور اس دوران سینکڑوں افراد نے محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی بھی کی تھی۔

تاہم گزشتہ ہفتے نیویارک میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کے درمیان ہونے والی ملاقات میں لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کم کرنے کے لیے فوجی عہدیداروں میں رابطوں کو مزید موثر بنانے پر اتفاق کیا گیا تھا۔

کنٹرول لائن کے دونوں جانب سینکڑوں دیہات اور قصبے دونوں ممالک کی افواج کے درمیان گولہ باری کی زد میں رہے ہیں جن میں پاکستان کی جانب وادی نیلم سب سے زیادہ متاثر رہی۔

کشمیر کی خود مختاری کی حامی چند تنظیموں نے اسی مناسبت سے وادی نیلم میں ایک امن کانفرس کا انعقاد کیا جس میں نوجوانوں اور خواتین کی ایک بڑی تعداد نے بھی شرکت کی۔

کانفرس کے شرکا نے بامقصد مذاکرات کو مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کا واحد راستہ قرار دیا۔

مقررین کا کہنا تھا کہ کشمیری عوام کسی مہم جوئی کے مرتکب نہیں ہو سکتے اور آئندہ نسلوں کی بقا کے لیے امن انتہائی ناگزیر ہے۔

میاں عبدالوحید


وادی نیلم سے تعلق رکھنے والے پاکستانی کشمیر کے وزیر تعلیم میاں عبدالوحید نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ 1990ء سے 2003ء تک اس وادی کے 105 میں سے 88 دیہات گولہ باری کی زد میں آئے جس کے نتیجے میں دو ہزار سے زائد افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو کر معذوری کی زندگی گزار رہے ہیں۔

انھوں نے کنٹرول لائن پر کشیدگی میں کمی کے لیے اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا اسے علاقے کے لوگوں کے لیے ایک خوشخبری قرار دیا۔

’’میرا خیال ہے کہ 2003ء میں فائربندی کے معاہدے کے بعد یہ دوسری بڑی خوشخبری ہے اور میں نے بہت سے مایوس چہروں پر مسکراہٹ دیکھی ہے۔۔۔ وادی نیلم کا علاقہ کشمیر میں جنگلات، معدنیات اور سیاحت کے حوالے سے بہت پوٹینشل رکھتا ہے تو جب امن ہو گا ترقی ہوگی، ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ کنٹرول لائن پر امن ہونے کی وجہ سے گزشتہ سال سیاحوں کی بڑی تعداد نے کشمیر کا رخ کیا تھا جو کہ کشمیر کی اقتصادی صورتحال کے لیے ایک حوصلہ افزا بات رہی۔