اسلام آباد کچہری حملے کی مذمت جاری، وکلا کی ہڑتال

سپریم کورٹ نے وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ کو حکم دیا کہ ضلعی کچہری میں 48 گھنٹوں میں سی سی ٹی وی کمیرے اور واک تھرو گیٹس نصب کیے جائیں۔
پاکستان کی عدالت عظمٰی کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اسلام آباد کی ضلعی کچہری میں دہشت گرد حملے پر متعلقہ حکام سے کہا ہے عدالت کو یہ بتایا جائے کہ پولیس اہلکار حملہ آوروں کے خلاف بروقت کارروائی کرنے میں کیوں ناکام رہے۔

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ایٹ میں واقع ’کچہری کمپلیس‘ پر پیر کی صبح خودکش بمباروں نے فائرنگ کر کے ایک جج سمیت گیارہ افراد کو ہلاک اور 26 سے زائد کو زخمی کر دیا تھا۔

چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اس حملے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے منگل کو اسلام آباد پولیس کے سربراہ سکندر حیات اور وفاقی سیکرٹری داخلہ شاہد خان کو طلب کر رکھا تھا۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اسلام آباد پولیس کے سربراہ سکندر حیات سے استفسار کیا کہ جب کچہری پر حملہ کیا گیا تو وہاں کتنے پولیس اہلکار تعینات تھے اور اُن میں سے کتنے اہلکاروں نے جوابی کارروائی کی۔


اسلام آباد پولیس کے سربراہ نے عدالت کو بتایا کہ دو اہلکاروں نے حملہ آوروں کو نشانہ بنایا۔ سپریم کورٹ نے اُنھیں حکم دیا کہ اس حملے سے متعلق ایک جامع رپورٹ پیش کی جائے۔

سماعت کے دوران سیکرٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ کچہری میں حفاظت کے لیے 66 پولیس اہلکار تعینات ہوتے ہیں لیکن پیر کو 47 اہلکار وہاں موجود تھے۔

سپریم کورٹ نے وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ کو حکم دیا کہ ضلعی کچہری میں 48 گھنٹوں میں سی سی ٹی وی کمیرے اور واک تھرو گیٹس نصب کیے جائیں۔

ادھر منگل کو وکلاء کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم پاکستان بار کونسل نے ملک بھر میں سوگ کا اعلان کرتے ہوئے عدالتی کارروائیوں کا بائیکاٹ کیا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کامران مرتضیٰ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’’ لوکل بار نے ایک ہفتے کے بائیکاٹ کی کال دی ہے….. اسلام آباد کچہری کی حالت یہ ہے کہ وہا ں کام کرنا ابھی ممکن نہیں ہے ایک ہفتے تک اور شاید اس سے زیادہ وقت بحالی میں لگے۔‘‘

اسلام آباد کچہری پر حملے کی ملک بھر میں مختلف حلقوں کی جانب سے مذمت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ پاکستان میں امریکہ کے سفیر رچرڈ اولسن نے بھی ایک بیان میں دہشت گرد حملے کی مذمت کرتے ہوئے متاثرہ افراد کے خاندانوں سے تعزیت کی ہے۔

سفیر اولسن نے اپنے بیان میں کہا کہ اس حملے کی تحقیقات میں معاونت کے لیے امریکہ تیار ہے۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت کو دہشت گردوں کے خلاف بھر پور کارروائی کرنی چاہیئے۔

’’ہم صورت حال کی سنگینی کو دیکھنا چاہیئے، کہ صورت حال کتنی خطرناک ہو رہی ہے۔ ان سارے حالات میں حکومت بڑا ہی سخت طریقے سے کسی کارروائی کی منصوبہ بندی کرنی چاہیئے۔‘‘

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے پیر کی رات قومی اسمبلی میں ایک بیان میں کہا کہ حکومت کچہری پر حملے میں ملوث عناصر کو تلاش کر کے انصاف کے کٹہرے میں لائے گی۔

تاہم اُنھوں نے اعتراف کیا کہ ملک کو جس قسم کی دہشت گردی کا سامنا ہے اُس کے لیے پولیس اور دیگر سویلین فورسز تیار نہیں ہیں۔

’’پاکستان کی افواج نے تربیت بھی حاصل کر لی اور خود موجودہ خطرات سے نمٹنے کے لیے خود کو ڈھال بھی لیا۔ باقی ہماری جو پولیس فورسز ہیں یا سویلین آرمڈ فورسز ہیں وہ اس قسم کی جنگ سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہوئی ہیں۔‘‘


اسی اثناء میں منگل کو وزیراعظم سے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار اور طالبان سے مذاکرات کے لیے تشکیل کردہ سرکاری کمیٹی کے چاروں ممبران نے ملاقات کی۔

جس کے بعد جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان میں کہا گیا کہ جنگ بندی کے اعلان کے بعد دہشت گردی کے واقعات کا جاری رہنا قیام امن کے لیے مذاکراتی عمل کو نقصان پہنچائے گا۔

بیان میں وزیراعظم نے کہا کہ پائیدار امن کا قیام حکومت کی اولین ترجیح ہے جس کے لیے ہر سطح پر کوششیں کی جا رہی ہیں۔

کچہری پر دہشت گرد حملے کی ذمہ داری ایک غیر معروف شدت پسند تنظیم احرار الہند نے قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ماضی میں تحریک طالبان پاکستان کا حصہ رہ چکی ہے لیکن اب ان کا طالبان سے کوئی تعلق نہیں۔

تاہم کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ احرارالہند نامی گروپ ان کا حصہ نہیں رہا اور طالبان فائربندی کے اپنے اعلان پر کاربند ہیں۔

یہ واقعہ ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب گزشتہ ہفتہ کو تحریک طالبان پاکستان نے یکطرفہ طور پر ایک ماہ کے لیے فائر بندی کا اعلان کیا تھا جس کے جواب میں حکومت نے بھی شدت پسندوں کے خلاف فضائی کارروائی روکنے کا فیصلہ کیا۔