خیبر ایجنسی میں آپریشن کے تازہ مرحلے کی تیاری

فائل فوٹو

اُدھر صوبہ خیبرپختونخواہ کی حکومت نے غیر قانونی طور پر صوبے میں مقیم افغانوں بشمول افغان علما پیش اماموں سے کہا ہے کہ وہ اپنے وطن واپس چلے جائیں۔

پاکستانی فوج قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں جاری فوجی آپریشن ’خیبر ون‘ کا ایک نیا مرحلہ شروع کرنے جا رہی ہے جس کا آغاز آئندہ ماہ مارچ سے متوقع ہے۔

افغان سرحد سے ملحقہ اس قبائلی میں پاکستانی فوج نے گزشتہ سال اکتوبر میں ’خیبر ون‘ کے نام سے ایک بھرپور آپریشن شروع کیا تھا۔

جس میں اب تک درجنوں دہشت گرد مارے جا چکے ہیں جب کہ حکام کے مطابق بیسیوں عسکریت پسندوں نے سکیورٹی فورسز کے سامنے ہتھیار بھی ڈالے۔

اس علاقے میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی میں مصروف خیبر رائفل کے ایک مقامی کمانڈر نے صحافیوں کو بتایا کہ مارچ کے مہینے سے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے نئے مرحلے کا آغاز کیا جائے۔

مقامی فوجی کمانڈر کے بقول تازہ کارروائی وادی تیراہ میں چھپے دہشت گردوں کے خلاف کی جائے گی۔ سکیورٹی فورسز کی اس کارروائی میں خیبر ایجنسی کے دیگر علاقوں سے بھی شدت پسندوں کا خاتمہ کیا جائے گا۔

پاکستانی فوج گزشتہ سال اکتوبر کے بعد سے خیبر ایجنسی کی وادی تیراہ سمیت دیگر علاقوں میں جیٹ طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کی مدد سے کارروائی کرتی رہی ہے۔

فوج نے گزشتہ سال جون میں شمالی وزیرستان میں آپریشن ’ضرب عضب‘ شروع کیا تھا جس کے بعد عسکری کمانڈروں کے مطابق بعض دہشت گرد فرار ہو کر خیبر ایجنسی میں منتقل ہو گئے اور اُنھوں نے وہاں منظم ہونا شروع کر دیا تھا۔

اسی بنا پر خیبر ایجنسی میں فوجی کارروائی کا آغاز کیا گیا۔

واضح رہے کہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے مہلک حملے کے بعد پاکستان نے ملک بھر میں شدت پسندوں اور اُن کے حامیوں کے خلاف کارروائیوں کو وسعت دی۔

ملک کی سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان طویل مشاورت کے بعد انسداد دہشت گردی کا ایک قومی لائحہ عمل بھی تیار کیا گیا، جس کے تحت غیر اندارج شدہ افغانوں کے کوائف کا اندارج کرنا بھی شامل ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغانوں میں سے پانچ ہزار سے زائد کو حالیہ ہفتوں میں اُن کے وطن واپس بجھوایا گیا۔

صوبہ خیبرپختونخواہ کی حکومت نے غیر قانونی طور پر صوبے میں مقیم افغانوں بشمول افغان علما دین سے کہا ہے کہ وہ اپنے وطن واپس چلے جائیں۔

اس سے قبل افغان سرحد سے ملحقہ پاکستان کے قبائلی علاقوں خاص طور پر کرم ایجنسی میں مقامی انتظامیہ نے افغان پناہ گزینوں کو علاقے سے نکل جانے کے لیے کہا تھا۔

صوبہ خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقوں میں کئی دینی مدارس اور مساجد میں افغان علمائے دین طویل عرصے سے موجود رہے ہیں۔​