شعبہٴ تعلیم کے اہداف کے حصول میں پاکستان دہائیاں پیچھے ہے: رپورٹ

فائل

عالمی سطح پر تعلیم کی صورتحال سے متعلق اقوام متحدہ کی ایک تازہ جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان شعبہ تعلیم کے اہداف کے حصول میں کئی دہائیاں پیچھے ہے۔

دنیا کی اس ساتویں ایٹمی قوت کے شعبہ تعلیم پر مقامی و بین الاقوامی سطح پر پہلے بھی کئی سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں جہاں اسکول جانے کی عمر کے تقریباً دو کروڑ چالیس لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کے دیہی علاقوں کے مردوں میں خواندگی کا شرح 64 فیصد ہے جب کہ خواتین میں یہ شرح صرف 14 فیصد ہے۔

حالیہ مہینوں میں ایسی ہی کئی بین الاقوامی رپورٹس میں یہ کہا جا چکا ہے کہ بنیادی تعلیم حاصل کرنے والے بہت سے طلبا چھوٹی جماعتوں کے سبق کو بھی بمشکل پڑھ پاتے ہیں جس سے معیار تعلیم کی ابتری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان بنیادی تعلیم کے میدان میں اہداف کے حصول کے سلسلے میں تقریباً پچاس جب کہ ثانوی تعلیم کے میدان میں 60 سال پیچھے ہے۔

رپورٹ کے مطابق دنیا میں شعبہ تعلیم میں ترقی نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ تنازعات ہیں جو کہ بچوں کو اسکولوں سے محروم رکھتے ہیں۔

پاکستان کے ایک معروف ماہر تعلیم ڈاکٹر اے ایچ نیئر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ کے مندرجات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ حکومتوں کا شعبہ تعلیم اور سماجی ترقی کے شعبوں کی طرف غیر سنجیدہ رویہ اس کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

"ان (حکمرانوں) کا کوئی بھی منصوبہ خاص طور پر تعلیم کے میدان میں ایسا نہیں ہے کہ جس میں انھوں نے یہ دعوے نہ کیے ہوں کہ اگلے اتنے سالوں کے اندر ہم یہ کر لیں گے لیکن اتنے اگلے سال جو آئندہ پانچ سال، دس سال ہوتے ہیں جب تک وہ پورے ہوں اس وقت تک حکومتیں تبدیل ہو چکی ہوتی ہیں، وعدے بھلائے جا چکے ہوتے ہیں، یہ غیر سنجیدگی ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کی طرف سے ہمارے منتظمین کی طرف سے غیر سنجیدہ رویہ ہے۔"

ان کا کہنا تھا کہ سماجی شعبوں کو ترقی میں حصہ دار بنائے بغیر پائیدار ترقی ممکن نہیں۔

اقوام متحدہ کا ادارہ برائے تعلیم، سائنس و ثقافت "یونیسکو" بھی یہ کہہ چکا ہے کہ پائیدار ترقی بشمول خوشحالی میں اضافہ، صحت کی بہتر سہولتوں، تشدد میں کمی اور صنفی مساوات میں اضافے کے لیے تعلیم بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔

پاکستان کی موجودہ حکومت میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران انھوں نے تعلیم کے لیے مختص سالانہ رقم میں اضافے کے ساتھ ساتھ بچوں کے اسکول میں داخلے اور حاضری کو یقینی بنانے کے لیے مختلف اقدام کیے ہیں جس کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آرہے ہیں۔