گھر کو درست کرنے کی بات اعتماد کی علامت ہے: احسن اقبال

وزیر داخلہ احسن اقبال (فائل فوٹو)

پاکستان کے وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ گھر کو درست کرنے کی بات کرنا کمزوری نہیں بلکہ یہ طاقت اور اعتماد کی علامت ہے جس سے دنیا میں پاکستان کا وقار بلند ہوا ہے۔

احسن اقبال نے کہ یہ بات مقامی اخبار روزنامہ جنگ سے ایک انٹرویو کے دوران کہی۔

انہوں نے کہا کہ ایسے عناصر کی بیخ کنی ضروری ہے جس کی وجہ سے ملک عدم استحکام اور فرقہ واریت کا شکار ہوا۔

واضح رہے کہ افغانستان اور خطے سے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کے اعلان کے بعد امریکہ سمیت بعض دیگر ملکوں کی طرف سے پاکستان میں شدت پسندوں کی مبینہ محفوظ پناہ گاہوں سے متعلق تحفظات کا اظہار کیا گیا اور ملک کے اندر بھی بعض حلقوں کی طرف سے ایسے بیانات سامنے آئے کہ پاکستان کو اپنی پالیسی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

قبل ازیں وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے بھی ایسا ہی بیان دیا تھا جس کی تائید کرتے ہوئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا بھی کہنا تھا کہ ہمیں اپنے گھر کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔

اس بیان پر حکومتی عہدیداروں کو نہ صرف حزب مخالف کے بعض حلقوں بلکہ سابق وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار کی طرف سے بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

دفاعی اور سلامتی کے امور کے تجزیہ کار طلعت مسعود نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی دباؤ کے پیش نظر پاکستان کی سول اور فوجی قیادت نے یہ محسوس کیا ہے کہ ملک کی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کا یہ ایک مناسب وقت ہے۔

" یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ پالیسی کی تبدیلی کسی کو خوش کرنے کے لیے اتنی نہیں ہے جتنی اپنے ملک کو سدھارنے کے لیے ہے۔ کیونکہ سارا مقصد تو یہ ہے کہ ایسی پالیسیاں ہوں جس سے ملک مستحکم ہو اور ملک مستحکم ہو گا تو آپ دیکھیں گے کہ امریکہ اور دوسرے ممالک پر اس کی مثبت اثرات ہوں گے اور وہ جس قسم کا دباؤ پاکستان پر ڈال رہے تھے وہ بھی کم ہو جائے گا۔"

بعض مبصرین کا کہنا ہے پالیسی کو تبدیل کرنا ایک آسان چیلنج نہیں اور حال ہی میں شدت پسندی کا پسں منظر رکھنے والے بعض گروپوں کی طرف سے ملک کے قومی سیاسی دھارے میں شامل ہونے کی کوششوں پر بھی بعض حلقوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

طلعت مسعود کا اس بارے میں کہنا تھا۔ " قومی دھارے میں شامل کرنے کے حوالے سے احتیاط کی ضرورت ہے ایسی جماعتیں جو اپنا ایجنڈا برقرار رکھیں ان کو قومی دھارے میں شامل کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔۔۔۔لیکن اگر وہ جماعتیں شدت پسندی میں ملوث رہی ہیں ان کو سوچ سمجھ کر انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کی ضرورت ہے اور پھر یہ یقین ہونا چاہیے کہ انھوں نے پھر ماضی کی پالیسیوں کو پوری طرح تبدیل کیا ہے۔"