سوشل میڈیا پر "فتوے دینے والوں" کے خلاف کارروائی کا اعلان

فائل

پاکستان میں گزشتہ ہفتے انتخابی اصلاحات بل کی منظوری اور کاغذاتِ نامزدگی فارم میں تبدیلی کے بعد سے سوشل میڈیا پر کئی لوگ غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔

پاکستان کے وفاقی وزیرِ داخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر فتوے جاری کرنے والوں کے خلاف سائبر کرائم ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے گی۔

وزیرِ داخلہ نے یہ بیان گزشتہ ہفتے حکومت کی جانب سے الیکشن ایکٹ 2017ء کی منظوری کے دوران ختمِ نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی کے بعد حکومت پر سوشل میڈیا میں ہونے والی کڑی تنقید کے تناظر میں دیا ہے۔

جمعے کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کے دوران وزیرِ داخلہ احسن اقبال نے کہا کہ مذہبی جذبات پر سیاست کرنا گھناؤنا جرم ہے اور کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے پر کفر کے فتوے لگائے۔

انہوں نے کہا کہ حب اللہ اور حب الرسول کی ٹھیکیداری کسی کے پاس نہیں اور جو کوئی سوشل میڈیا پر فتوے بانٹے گا اس کے خلاف سائبر قانون کے تحت کارروائی کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی ملک میں جہاد کا اعلان ریاست کا حق ہے لہذا ہر محلے اور مسجد سے جہاد کا اعلان نہیں کیا جا سکتا جب کہ کسی کو یہ حق بھی نہیں کہ کسی دوسرے کے قتل کا فتویٰ جاری کرے۔

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ گزشتہ کچھ عرصے سے ملک میں عدم برداشت کا کلچر بڑھ رہا ہےاور اب وقت آگیا ہے کہ ہم ملک کے اندر ایسے رجحانات کی نفی کریں جس سے ہماری داخلی سلامتی کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر جس کا دل چاہتا ہے فتوے دے دیتا ہے، آئین اور قانون کے تحت اس کی کوئی گنجائش نہیں۔

پاکستان میں گزشتہ ہفتے انتخابی اصلاحات بل کی منظوری اور کاغذاتِ نامزدگی فارم میں تبدیلی کے بعد سے سوشل میڈیا پر کئی لوگ غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں جب کہ ترمیم کے حق میں ووٹ دینے والے حکومتی ارکانِ پارلیمنٹ پر بھی کڑی تنقید کی جارہی ہے۔

گو کہ حکومت کاغذاتِ نامزدگی میں شامل ختمِ نبوت سے متعلق حلف نامے کو اس کی اصل صورت میں بحال کرنے کا اعلان کرچکی ہے لیکن اس کے باوجود کئی سیاسی اور مذہبی حلقے ان افراد کا نام سامنے لانے کا مطالبہ کر رہے ہیں جنہوں نے حلف کے متن میں تبدیلی کی۔

اس صورتِ حال کی وجہ سے بعض ارکانِ پارلیمنٹ نے یہ معاملہ حکومت کے سامنے اٹھایا ہے اور اپنی سکیورٹی کے بارے میں خدشات بھی ظاہر کیے ہیں۔

پاکستان میں مذہبی قوانین میں ترمیم یا ان کی منسوخی ایک حساس معاملہ ہے اور اس طرح کی تجاویز پر اس سے قبل بھی پرتشدد واقعات پیش آتے رہے ہیں۔

یاد رہے کہ پنجاب کے سابق گورنر سلمان تاثیر کو ان کے اپنے ہی محافظ ممتازقادری نے توہینِ مذہب کے الزام پر فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔