پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ میں پولیس نے قومی فضائی کمپنی ’پی آئی اے‘ کے مسافر طیارے پر فائرنگ کے شبے میں دو سو سے زائد افراد کو تحویل میں لے کر پوچھ گچھ شروع کر دی ہے۔
منگل کو رات دیر گئے سعودی عرب کے شہر ریاض سے آنے والی جہاز پر اس وقت نامعلوم افراد نے فائرنگ کی جب پشاور کے ہوائی اڈے پر اترنے کے لیے طیارہ نہایت نیچی پرواز کر رہا تھا۔
اس واقعے میں ایک خاتون مسافر ہلاک جب کہ عملے کے ایک رکن سمیت دو افراد زخمی ہو گئے تھے۔
پشاور پولیس کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ نجیب الرحمن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ طیارہ زمین سے تقریباً پانچ سو میٹر کی بلندی پر جب اس پر فائرنگ کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہوائی اڈے کا لینڈنگ زون جہاں سے شروع ہوتا ہے وہ خیبر ایجنسی کی تحصیل باڑہ اور پشاور کے درمیان ہے جو کہ دیہی آبادی والا علاقہ ہے۔
"علاقے کا تعین ہو گیا ہے جہاں سے فائرنگ ہوئی تھی یہ سلمان خیل کا علاقہ ہے اور طیارے پر ایس ایم جی سے فائرنگ کی گئی، دو سو سے زائد لوگوں کو ہم نے پکڑا ہے ان سے پوچھ گچھ ہو رہی ہے، یہاں کے لوگوں کو معلوم ہوگا کہ یہ واقعہ کیسے ہوا ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن کا مسافر بردار طیارہ ’’لینڈنگ موڈ‘‘ میں تھا اور حملے کے تین منٹ بعد طیارہ ائیر پورٹ پر اتر گیا۔ ان کے بقول جہاز پر 12 گولیاں لگیں۔
طیارے پر فائرنگ کے واقعے کے بعد کچھ دیر کے لیے ہوائی اڈے پر فضائی آپریشن معطل رہا جسے بعد میں بحال کر دیا گیا۔ فضائی کمپنی کے مطابق طیارے پر 196 مسافر اور عملے کے 10 ارکان سوار تھے۔
پشاور ایئرپورٹ پر اس سے پہلے بھی شدت پسندوں کی طرف سے راکٹ داغنے کے واقعات رونما ہو چکے ہیں لیکن کسی بھی جہاز پر فائرنگ کا یہ پہلا واقعہ ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر دہشت گردانہ حملے کے بعد تمام ہوائی اڈوں کی سکیورٹی میں اضافہ کر دیا گیا ہے اور حکام کے مطابق پشاور کے باچاخان ایئرپورٹ کی سکیورٹی بھی انتہائی سخت کر دی گئی تھی۔
اس حملے کی ذمہ داری ابھی کسی نے قبول نہیں کی تاہم کالعدم عسکریت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان فوج کی طرف سے شمالی وزیرستان میں کارروائی کے آغاز کے بعد غیر ملکی سرمایہ کاروں، فضائی کمپنیوں اور بین الااقوامی اداروں پر حملے کی دھمکیاں دے چکی ہے۔
پولیس حکام کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں عسکریت پسند ہی ملوث ہو سکتے ہیں۔