پولیو وائرس پھیلنے کا موسم، بھرپور و موثر مہم کی ضرورت: یو این

پاکستانی محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ پولیو کے چار نئے کیسز سامنے آئے ہیں جن میں سے تین ایسے بچے ہیں جنھیں خیبرپختوانخواہ میں مختلف مہم کے دوران ویکسین نہیں پلائی گئی جبکہ ایک بچے کا تعلق شمالی وزیرستان سے ہے۔

شمالی وزیرستان میں رواں ماہ عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن سے بے گھر ہونے والے گھرانوں کو امداد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ تقریباً ڈیڑھ لاکھ بچوں کو انسداد پولیو کی ویکسین پلانا بھی اقوام متحدہ اور محکمہ صحت کے اہلکاروں کے مطابق ایک بڑا چیلنج ہے۔

پاکستانی محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ پولیو کے چار نئے کیسز سامنے آئے ہیں جن میں سے تین ایسے بچے ہیں جنھیں خیبر پختونخواہ میں مختلف مہم کے دوران ویکسین نہیں پلائی گئی جبکہ ایک بچے کا تعلق شمالی وزیرستان سے ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے صحت ڈبلیو ایچ او کے نیشنل کوارڈینیٹر ڈاکٹر زبیر مفتی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نقل مکانی کرنے والے بچوں کو صرف ایک مرتبہ ویکسین پلانے سے پولیو کے وائرس پر قابو نہیں پایا جا سکے گا۔

’’اس آبادی میں انفیکشن اتنا شدید ہے کہ دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح جہاں ایسی نقل مکانی ہوتی ہے تو ویکسین کے لیے عمر کی حد کو بڑھا دیا جاتا ہے تو یہاں بھی ایسا ہونا چاہیئے۔ اگر مہم کامیابی سے نا چلائی گئی تو زیادہ کیسز آئیں گے اور گرمی اور مون سون میں پولیو وائرس زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے۔‘‘

حکومت میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ نقل مکانی کرنے والے خاندانوں کو نا صرف شمالی وزیرستان کے قبائلی علاقے سے شہروں میں داخل ہوتے ہوئے پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے گئے بلکہ ان کے بقول ایک مربوط منصوبے کے تحت جن شہروں میں وہ مقیم ہیں وہاں بھی یہ مہم جاری رکھی جائے گی۔

اقوام متحدہ اور سرکاری حکام کے مطابق رواں سال کے اوائل میں شمالی وزیرستان سے متصل اضلاع میں بھی ویکسین پلانے کی مہم چلائی گئی تھیں تاکہ نقل مکانی کرنے والے افراد سے وائرس کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کے ممکنہ خطرے پر قابو پایا جا سکے۔

ڈبلیو ایچ او کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ اسی دوران لگ بھگ 10 ہزار بچوں کو پولیو بچاؤ کے قطرے نہیں پلائے جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخواہ میں نقل مکانی کرنے والے قبائلیوں کے لیے چلائی جانے والی مہم کی نگرانی کے لیے ادارے کی طرف سے ٹیموں کی تعداد 300 تک بڑھا دی گئی ہے۔

’’وائرس سب سے بڑا مانیٹر ہوتا ہے اگر آپ نے مہم صحیح انداز میں چلائی تو وہ ویکسین کی شیلڈ توڑ کر بچے کو مفلوج نہیں کر سکتا۔ اگر ایک ہی گاؤں یا، گلی میں بچے بار بار مہم کے دوران رہ جائیں تو وہ خطرناک ہے اور ان 5 سے 10 ہزار بچوں میں کچھ ایسے ہیں جو کہ تشویش ناک بات ہے۔‘‘

ڈبلیو ایچ او نے حال ہی میں پاکستان کو دنیا کے ان تین ملکوں کا فہرست میں شامل کیا جو کہ اس وقت پولیو وائرس عالمی سطح پر پھیلا رہے ہیں اور اسی بنا پر پاکستان سے باہر جانے والوں پر انسداد پولیو ویکسینیشن کروانا لازم ہے۔

گزشتہ دو سالوں سے شدت پسندوں کی پابندی کے باعث شمالی وزیرستان میں انسداد پولیو مہم نہیں چلائی جا سکی اور رواں سال 90 کے قریب رپورٹ ہونے والے بیشتر کیسز وہیں سے رپورٹ ہوئے ہیں۔

اقوام متحدہ کے حکام اور طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ قبائلیوں کی نقل مکانی نے پاکستان کو ایک بہترین موقع فراہم کیا ہے کہ وہ انسداد پولیو ویکسین سے محروم آبادی تک رسائی حاصل کرکے جسمانی اعضاء کو مفلوج کر دینے والے وائرس پر قابو پائے۔