اسپیکر قومی اسمبلی غیر جانبدار نہیں، انھیں اسپیکر نہیں مانتا: عمران خان

فائل فوٹو

پی ٹی آئی کے سربراہ نے کہا کہ جمہوریت میں احتساب ہوتا ہے لیکن ان کے بقول وزیراعظم اس ضمن میں جواب نہیں دے رہے۔

حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان نے الزام عائد کیا ہے کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق غیر جانبدار نہیں ہیں لہذا وہ انھیں ایوان کا اسپیکر نہیں مانتے۔

جمعرات کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اسپیکر نے وزیراعظم نواز شریف کی اہلیت کے خلاف دائر ریفرنس کو الیکشن کمیشن کو نہیں بھجوایا لیکن جو ان کے خلاف دائر ریفرنسز کو کمیشن کو ارسال کر دیا، جس سے ان کے بقول ایاز صادق جانبداری کے مرتکب ہوئے۔

تاہم بعد ازاں اسپیکر کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا کہ انھوں نے موصول ہونے والے تمام ریفرنس پر ضابطے کے مطابق کارروائی۔

اپنے خطاب میں ایک بار پھر عمران خان نے وزیراعظم کے بچوں کے نام آف شور کمپنیوں کے انکشاف کا تذکرہ کرتے ہوئے انھیں تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ جمہوریت میں احتساب ہوتا ہے لیکن ان کے بقول وزیراعظم اس ضمن میں جواب نہیں دے رہے۔

رواں سال اپریل میں پاناما پیپرز میں ہونے والے انکشاف کے بعد وزیراعظم نے حزب مخالف کے مطالبے پر سپریم کورٹ کے جج کی سربراہی میں کمیشن بنانے کا اعلان تو کیا تھا لیکن اس کے ضابطہ کار پر فریقین میں تاحال اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔

عمران خان کی جماعت وزیراعظم کے خلاف تحریک احتساب کے عنوان سے ملک گیر احتجاج بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔

پی ٹی آئی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ احتجاج جمہوریت کا حصہ ہے اور وہ پرامن طریقے سے سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں لیکن ان کے بقول (حکومت) ان کے احتجاج کو غیر جمہوری قرار دیتی ہے۔

عمران خان نے 24 ستمبر کو لاہور کے مضافات رائیونڈ میں وزیراعظم نواز شریف کی رہائش گاہ کی طرف مارچ کرنے کا اعلان بھی کیا تھا لیکن اس پر انھیں حکومت سمیت بعض دیگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

اس پر عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ حزب مخالف کے مشورے سے بدعنوانی کے خلاف اپنے مارچ کا مقام تبدیل بھی کر سکتے ہیں۔

تقریر کے بعد عمران خان اپنی جماعت کے قانون سازوں کے ساتھ ایوان سے واک آؤٹ کر گئے جس میں حزب مخالف کی دیگر جماعتوں نے بھی علامتی طور پر شرکت کی۔

حکومت کا کہنا ہے کہ وہ بدعنوانی کے خلاف جامع قانون سازی کرنا چاہتی ہے اور اگر حزب مخالف خصوصاً عمران خان اس کے لیے سنجیدہ ہیں تو وہ پارلیمان میں اس عمل کا حصہ بنیں۔