راولپنڈی میں کرفیو، کئی دیگر شہروں میں بھی کشیدگی

راولپنڈی میں ہونے والے تصادم کے بعد پنجاب کے دو دیگر شہروں ملتان اور بہاولنگر میں بھی بظاہر فرقہ وارانہ فسادات کے تناظر میں ضلعی انتظامیہ نے فوج کی مدد طلب کی ہے۔
وفاقی دارالحکومت کے جڑواں شہر راولپنڈی میں یومِ عاشور کے موقع پر فرقہ وارانہ جھڑپوں کے بعد ہفتہ کو دن بھر کرفیو نافذ رہا اور اس دوران صورت حال بدستور کشیدہ رہی۔

وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اس واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے اس کی عدالتی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔

راولپنڈی کے گنجان آباد علاقے راجہ بازار اور اس کے گرد و نواح میں حالات جمعہ کو اُس وقت انتہائی کشیدہ ہو گئے جب یومِ عاشور پر نکالے گئے روایتی جلوس میں شریک شیعہ عزاداروں اور سنی مسلک کے مدرسے میں موجود افراد میں پہلے تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا اور بعد ازاں اس نے مسلح تصادم کی شکل اختیار کر لی، جس دوران فائرنگ اور پتھراؤ کا سلسلہ بھی جاری رہا۔

مقامی انتظامیہ اور رہائشیوں نے بتایا کہ کشیدگی کے دوران نامعلوم مشتعل افراد نے متعدد املاک بشمول کپڑے کی ایک مارکیٹ کو آگ لگا دی۔ اسپتال ذرائع کا کہنا ہے کہ شہر میں ہنگاموں کے بعد کم از کم 10 لاشیں اور 30 سے زائد زخمی اسپتال پہنچائے گئے۔ ہلاکتوں کی تعداد کی سرکاری سطح پر تصدیق نہیں کی گئی ہے۔

خون ریز بد امنی کے فوری بعد فوجی دستوں کو طلب کر کے شہر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا، جس کے بعد مزید ہنگاموں کی اطلاعات موصول نہیں ہوئیں۔ حکام کے مطابق ہفتہ کی شب 12 بجے تک کرفیو کا نفاذ رہے گا۔


صوبہ پنجاب کے وزیرِ قانون رانا ثنا اللہ نے اپنے بیان میں کہا کہ واقعے میں ملوث عناصر کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کے قانون کے تحت کارروائی کی جائے گی، جب کہ راولپنڈی پولیس نے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ بھی درج کر لیا ہے۔

راولپنڈی کے ایک حلقے سے منتخب رکن قومی اسمبلی شیخ رشید احمد نے نیوز کانفرنس سے خطاب میں مقامی انتظامیہ کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ اُن کے بقول نا اہلی کو ظاہر کرتی ہے۔

’’فوج کا کنٹرول ہے، لوگوں کو انتظامیہ اور فوج سے مکمل تعاون کرنا چاہیئے۔‘‘

راولپنڈی میں ماضی قریب میں فرقہ وارانہ کشیدگی کا اتنا بڑا واقعہ پیش نہیں آیا، شیخ رشید کہتے ہیں کہ فوجی چھاؤنی والے اس شہر کی حساس نوعیت کو سمجھتے ہوئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔

’’یہ بڑا حساس شہر ہے، اس کی حساسیت کو سمجھا جائے…. ہم نے اُنھیں پیشکش ہے کہ ہم انتظامیہ، فوج اور حکومت کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں۔‘‘

مزید برآں سیاسی و مذہبی حلقوں نے سنی اور شیعہ مسالک سے تعلق رکھنے والے افراد سے پُر امن رہنے کی اپیل کی ہے۔

اسلام آباد میں ہفتہ کو وفاقی وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان کی سربراہی میں ایک اجلاس بھی ہوا جس میں راولپنڈی میں امن و امان کی مجموعی صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔

وفاقی وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان



پاکستان بھر میں محرم الحرام کے دوران سکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات دیکھنے میں آ ئے۔ راولپنڈی کے واقعہ سے قبل گوجرانوالہ اور کراچی میں امام بارگاہوں پر ہوئے حملوں میں کم از کم تین افراد ہلاک اور لگ بھگ 20 زخمی ہو گئے تھے۔ تاہم مجموعی طور پر ملک میں صورتِ حال ماضی کی نسبت پُر امن رہی۔

لیکن راولپنڈی میں ہونے والے تصادم کے بعد پنجاب کے دو دیگر شہروں ملتان اور بہاولنگر میں بھی بظاہر فرقہ وارانہ فسادات کے تناظر میں ضلعی انتظامیہ نے فوج کی مدد طلب کی ہے۔