تیزاب کی خرید و فروخت سے متعلق قانون سازی کی ضرورت

شرمین کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کررہی ہیں

آسکر ایوارڈ یافتہ پاکستانی فلم ساز شرمین عبید چنائے کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو کم ہی خوشخبریاں ملتی ہیں ان کے لیے یہ آسکر جیتنا اور عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندگی بہت اعزاز کی بات ہے۔

شرمین عبید چنائے ہفتے کو وطن واپسی کے بعد کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہی تھیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ 26 فروری کو آسکر کی تقریب میں پاکستان کے پانچ افراد شریک تھے جو ایک اعزاز ہے ۔ وہاں نہ صرف ہماری دستاویزی فلم کو پذیرائی ملی بلکہ ہمارے لباس اور تہذیب کو بھی بے حد سراہا گیا۔

اپنی دستاویزی فلم کے لیے تیزاب کے موضوع کے انتخاب پر شرمین عبید کا کہنا تھا کہ وہ اس فلم کے ذریعے پاکستان میں تیزاب سے جھلسنے والی خواتین کو درپیش مسائل کو سامنے لانا چاہتی تھیں ’’وہاں یہ ایک امید کی کہانی بھی ہے کہ کس طرح پاکستان اپنے مسائل کا حل خود ڈھونڈ رہا ہے اور یہاں موجود با اخیتار خواتین ان خواتین کی مدد کر رہی ہیں جن کو اس کی ضرورت ہے۔‘‘

تیزاب پھینکنے سے متعلق بل حال ہی میں پاکستان کی قومی اسمبلی سے منظور ہو کر قانون کا حصہ بنا ہے اور اس کے تحت اس جرم کا ارتکاب کرنے والے کو عمر قید کی سزا دی جائے گی۔ تاہم اس موقع پر شرمین عبید کا کہنا تھا کہ اس قانون کی منظوری کے بعد جہاں اس پر موثر عمل درآمد بھی ضروری ہے وہاں حکومت تیزاب کی خرید و فروخت سے متعلق بھی قانون بنائے۔

شرمین عبید نے بتایا کہ سیونگ فیں جلد ہی ارد و زبان میں پاکستان میں جاری کی جائے گی تاہم انھوں نے مطالبہ کیا کہ جنوبی پنجاب کی جن خواتین نے اس دستاویزی فلم میں مرکزی کردار ادا کیا ہے انھیں تحفظ فراہم یا جائے کیوں کہ وہ جن علاقوں میں رہتی ہیں وہاں اس موضوع پر بات کرنا بھی مشکل ہے ۔

حقوق نسواں کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہر سال سو سے زائد تیزاب پھینکنے کے واقعات منظر عام پر آتے ہیں لیکن یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیوں کہ بیشتر واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے اور زیادہ تر خواتین ہی ان کا نشانہ بنتی ہیں۔

شرمین کا کہنا تھا کہ تیزاب پھینکنا ایک بھیانک عمل ہے لیکن اگر حکومت اور عوام مل کر کام کریں تو یہ ختم ہوسکتا ہے اور ان کی دستاویزی فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والی خواتین کی کہانیوں جیسے واقعات کبھی دوبارہ رونما نہیں ہوں گے۔