سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں سے سنائی گئی سزائیں معطل کر دیں

سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ جب تک فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف دائر درخواستوں پر فیصلہ نہیں آجاتا یہ سزائیں معطل رہیں گی۔

پاکستان کی عدالت عظمٰی نے رواں ماہ کے اوائل میں فوجی عدالتوں کی طرف سے چھ مجرموں کو دی گئی موت کی سزا کو معطل کر دیا ہے۔


سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ جب تک فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف دائر درخواستوں پر فیصلہ نہیں آجاتا یہ سزائیں معطل رہیں گی۔

پارلیمان میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان مشاورت سے رواں سال کے اوائل میں آئین میں اکیسویں ترمیم اور آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بعد دہشت گردی کے مقدمات کے لیے ملک میں نو فوجی عدالتیں قائم کی گئی تھیں جن سے چھ مجرموں کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں قائم فل کورٹ بینچ نے حال ہی میں قائم کی گئی فوجی عدالتوں کے خلاف دائر متفرق درخواستوں کی سماعت جمعرات کو شروع کی۔

درخواست گزار کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے عدالت کے سامنے اپنے ابتدائی دلائل میں کہا ہے کہ فوجی عدالتیں بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ اگر پارلیمان آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم کوئی قانون بنائے تو سپریم کورٹ اُسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔

عدالتی کارروائی کے بعد عاصمہ جہانگیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اُن کے موقف کو سنتے ہوئے عدالت نے فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے افراد کی سزاؤں پر عمل درآمد روک دیا ہے۔


’’چھ لوگوں کو سزائے موت سنائی گئی ہے مگر یہ پتہ نہیں ہے کہ ان کا کس قسم کا ٹرائل ہوا، وکیل ملا نہیں ملا۔۔۔۔ جو آئین کے تحت لازمی ہے اور ہم نے (عدالت کو ) یہ کہا کہ جب تک اس ساری درخواست کا فیصلہ نہیں ہو جاتا، آیا کہ فوجی عدالتیں عام شہریوں کا مقدمہ سن سکتی ہیں یا نہیں ان کی سزائے موت پر عمل درآمد نہ کیا جائے ان کی پھانسیوں کو روک دیا جائے۔ یہ ہماری مناسب درخواست تھی جو کہ عدالت نے کہا کہ صحیح ہے۔‘‘

وفاق کی نمائندگی کرنے والے اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں سے سزا پانے والوں کو اپیل کا حق حاصل ہے۔

اٹارنی جنرل کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ پارلیمان سے منظور شدہ آئینی ترمیم کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔

اُدھر وفاقی وزیر مشاہد اللہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے کے لیے فوجی عدالتیں بنائی گئیں اور عدالت میں حکومت پارلیمان سے منظور شدہ ترمیم کا دفاع کرے گی۔

پاکستانی کی عسکری قیادت کی طرف سے بھی یہ کہا جاتا رہا ہے کہ خصوصی عدالتوں کا قیام فوج کی خواہش نہیں بلکہ موجودہ حالات کا تقاضا ہے۔

گزشتہ دسمبر میں آرمی پبلک اسکول پر ہوئے دہشت گرد حملے میں 134 بچوں سمیت 150 سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت نے فیصلہ کن کارروائی کا اعلان کیا تھا اور اس کے لیے ایک قومی لائحہ عمل (نیشل ایکشن پلان) وضع کیا گیا۔

فوجی عدالتوں کے قیام پر ملک میں وکلاء کی اکثریت کے علاوہ انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی تحفظات کا اظہار کرتی آرہی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان عدالتوں میں قانونی تقاضوں کے مطابق کارروائی پر انھیں شک و شبہات ہیں۔

تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے مقدمات کو جلد نمٹانے کے لیے یہ عدالتیں صرف دو سال کے لیے قائم کی گئی ہیں اور ان میں پیش ہونے والے ملزمان کو اپنی صفائی پیش کرنے کا پورا موقع ملے گا۔

پشاور اسکول پر حملے کے بعد پاکستان میں سزائے موت پانے والے مجرموں کی سزاؤں پر عمل درآمد پر عائد پابندی بھی ختم کر دی گئی تھی، جس کے بعد سے اب تک دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ قتل کے دیگر مقدمات میں عدالتوں سے سزائیں پانے والے 60 سے زائد مجرموں کو پھانسی دی جا چکی ہے۔

جمعرات کو بھی صوبہ پنجاب کی مختلف جیلوں پانچ مجرموں کو پھانسی دی گئی۔