طالبان سے مذاکرات پر کوئی بیرونی دباؤ نہیں:دفتر خارجہ

پاکستانی دفتر خارجہ

ترجمان اعزاز چودھری نے کہا کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ اور کسی بھی دوسرے ملک کو اس میں مداخلت کرنی بھی نہیں چاہیے۔
پاکستان نے کہا ہے کہ تحریک طالبان اور دیگر شدت پسندوں سے مذاکرات اس کا اندرونی معاملہ ہے اور اس کے لیے اس پر کوئی بیرونی دباؤ نہیں ہے۔

جمعرات کو ہفتہ وار نیوز بریفنگ میں دفترخارجہ کے ترجمان اعزاز احمد چودھری نے بتایا کہ حکومت پاکستان نے طالبان سے بات چیت کا اصولی فیصلہ کیا ہے اور اُن کے بقول اب تک کسی ملک کی طرف سے اس پر تحفظات کا اظہار نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ اور کسی بھی دوسرے ملک کو اس میں مداخلت کرنی بھی نہیں چاہیے۔

رواں ماہ کے اوائل میں حکومت نے پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے ایک اجلاس میں متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا تھا کہ شدت و انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے طالبان سے مذاکرات شروع کیے جانے چاہیئں۔

تاہم گزشتہ اتوار کو شمال مغربی علاقے دیر بالا میں طالبان شدت پسندوں نے ایک بم حملے میں فوج کے ایک میجر جنرل ثنا اللہ خان سمیت تین اہلکاروں کو ہلاک کر دیا تھا۔

اس واقعے کے بعد طالبان شدت پسندوں سے بات چیت کے معاملے پر مختلف حلقوں میں تحفظات کا اظہار کیا جارہا تھا لیکن وفاقی حکومت کے ترجمان سینیٹر پرویز رشید نے اس معاملے پر کچھ دن صبر سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے۔

’’مذاکرات کے عمل میں ابھی کچھ دن صبر سے کام لینا چاہیے۔بہت سی قوتیں ایسی ہوں گی جو چاہتی ہیں کہ پاکستان مسائل میں الجھا رہے۔ ۔ ۔ کچھ عناصر ایسے ہیں جن کا دل تو ہی ہے کہ ہم اس دلدل میں رہیں لیکن ان ساری رکاوٹوں کو عبور کیا جائےگا۔‘‘

اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں وفاقی وزیراطلاعات کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کے حل کے لیے جو متفقہ رائے تشکیل پائی اب وہ متفقہ پالیسی ہے اور حکومت کو جو کام سونپا گیا ہے وہ اسے ضرور پورا کرے گی۔