تحریک انصاف کو اسلام آباد میں جلسے کی مشروط اجازت

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ علاقے کی حساس نوعیت کے پیش نظر سکیورٹی کے سخت انتظامات بھی کیے جا رہے ہیں کیونکہ انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹ کے مطابق اس دوران دہشت گردی کی کسی کارروائی کا خدشہ بھی ہے۔

پاکستان میں گزشتہ چار ماہ سے جاری سیاسی تناؤ بدستور جاری ہے لیکن حکومت نے حزب مخالف کی جماعت تحریک انصاف کو اسلام آباد میں اتوار کو ایک بڑے جلسے کی مشروط اجازت دے دی ہے۔

جمعہ کو وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے بتایا کہ تحریک انصاف اور اسلام آباد کی انتظامیہ کے مابین تحریری طور پر ایک معاہدہ ہوا ہے جس میں جلسے کے مقام اور اس کے بارے میں دیگر قواعد و ضوابط درج ہیں۔

اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ سیاسی سرگرمیوں پر کوئی قدغن نہیں لیکن ان کے بقول اس کی آڑ میں کسی بھی طرح کے تشدد یا ریاستی اداروں کی عمارتوں پر دھاوا بولنے کی کوشش پر قانون حرکت میں آئے گا۔

"جن نکات پر اتفاق ہوا ہے اس کی کسی قسم کی خلاف ورزی کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی جس حوالے سے جس جگہ این او سی جاری کیا گیا ہے صرف اسی جگہ جلسہ ہو گا اور اس کے علاوہ اگر کسی قسم کی بھی تبدیلی کرنے کی کوشش کی گئی جیسے میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ قانون حرکت میں آئے گا۔ اگر کوئی ریڈ زون یا کسی اور ممنوع علاقے میں جاتا ہے اور سکیورٹی فورسز آگے سے کوئی کارروائی کرتی ہیں قانون کے مطابق تو اس کی ذمہ داری منتظمین پر ہو گی۔"

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اگست سے حکومت کے خلاف انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر سراپا احتجاج ہیں اور انھوں نے اپنے اس احتجاج کو ملک گیر جلسوں تک بھی بڑھا دیا ہے۔ اسلام آباد کے ڈی چوک میں ان کے کارکنوں کا ایک علامتی دھرنا بدستور موجود ہے جس سے عمران خان معمول کے مطابق شام گئے خطاب بھی کرتے ہیں۔

اگست کے اواخر میں اسی علاقے میں پولیس اور احتجاجیوں کے درمیان اس وقت جھڑپیں بھی ہوئیں جب مظاہرین نے وزیراعظم ہاؤس کی طرف بڑھنے کی کوشش کی۔

چودھری نثار کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو ڈی چوک میں جلسہ کرنے کی اجازت ہے لیکن اس اجتماع کا رخ جناح ایونیو کی طرف ہوگا نہ پارلیمنٹ کی طرف۔

ان کے بقول معاہدے کے مطابق جلسہ رات بارہ بجے تک ختم ہو جائے گا اور لوگ پرامن انداز میں منتشر ہوں گے۔

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ علاقے کی حساس نوعیت کے پیش نظر سکیورٹی کے سخت انتظامات بھی کیے جا رہے ہیں کیونکہ انٹیلی جنس اداروں کی رپورٹ کے مطابق اس دوران دہشت گردی کی کسی کارروائی کا خدشہ بھی ہے۔

عمران خان یہ اعلان کر چکے ہیں کہ 30 نومبر کو ملک بھر سے ان کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد اسلام آباد میں موجود ہو گی جو ان کے بقول حکمرانوں کے خلاف عوام کے فیصلے کو ظاہر کرے گی۔

عمران خان (فائل فوٹو)

جمعہ کو عمران خان نے ایک پریس کانفرنس میں ایک بار پھر انتخابات میں دھاندلی کے الزامات سے متعلق بعض شواہد صحافیوں کو دکھائے اور ان کا کہنا تھا کہ وہ ان دھاندلیوں کی شفاف تحقیقات تک اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔

انھوں نے کہا کہ اتوار کے جلسے میں "نئی چیز" پیش کریں گے۔

"پرسوں آپ کو ڈی چوک پر پتہ چلے گا کیا ایسی نئی چیز ہے۔ ایک نئی مہم آ رہی ہے زبردست تیار کی ہوئی ہے وہ آپ کے سامنے انشا اللہ پرسوں میں اعلان کروں گا۔"

حکومت پی ٹی آئی کے احتجاج کو بے جا قرار دیتے ہوئے کہہ چکی ہے کہ وہ دھاندلیوں کی تحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمیشن کی تشکیل بارے سپریم کورٹ کو خط بھی لکھ چکی ہے۔

حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس احتجاج کی وجہ سے ملک کی معیشت کو دوبارہ پاؤں پر کھڑا کرنے کی حکومتی کوششوں کو نقصان پہنچا ہے۔