نیویارک کی پاکستانی شیف

فاطمہ علی

نیو یارک شہر کے 70 اعلیٰ ترین ریستورانوں میں فاطمہ علی کے علاوہ اور کوئی غیر امریکی خاتون شیف موجود نہیں۔

نیویارک شہر کے ریستورانوں میں جن شیفس کا ڈنکا بجتا ہے ان کی اکثریت مرد ہے اور اس صف میں خواتین کم کم ہی ہیں۔اور کسی بھی غیر امریکی خاتون کے لیے تو شہر کے معروف شیفس کی صف میں آنا خاصا مشکل اور محنت طلب کام ہے۔ لیکن ایک نوجوان پاکستانی خاتون یہ کر گزری ہیں۔

فاطمہ علی نیو یارک کے مصروف علاقے 'مڈ ٹائون مین ہٹن' کے معروف ریستوران 'کیفے سینٹرو' میں اسسٹنٹ شیف ہیں۔ ان کا اعزاز صرف یہی نہیں کہ اس کم عمری میں ہی ان کا شمار شہر کے معروف شیفس میں ہونے لگا ہے بلکہ وہ ان چند پاکستانی خواتین میں شامل ہیں جو امریکہ میں کوکنگ کے سب سے معتبر ادارے 'کلنری انسٹی ٹیوٹس آف آرٹس' سے فارغ التحصیل ہیں۔

لیکن ان کے پاس ایک اعزاز اور بھی ہے جو انہیں حقیقی معنوں میں ممتاز کرتا ہے۔ 'وائس آف امریکہ' کی جانب سے کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق نیو یارک شہر کے 70 اعلیٰ ترین ریستورانوں میں فاطمہ علی کے علاوہ اور کوئی غیر امریکی خاتون شیف موجود نہیں۔

فاطمہ پاکستان ہی میں پلی بڑھی ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ اب ان کے پاس اپنے ملک کو دینے کے لیے بہت کچھ ہے۔ امریکہ میں اپنے قیام اور یہاں حاصل ہونے والے تجربات کے بارے میں ان کا کہنا ہے،

"یہاں امریکہ میں رہ کے مجھے کئی ایسے تجربات ہوئے ہیں جو پاکستان میں نہیں ہوسکتے تھے۔ مثال کے طور پر یہاں کھانوں میں شامل کرنے کےلیے اجزا کی جو ورائٹی دستیاب ہے، پاکستان میں وہ نہیں۔ بہر حال یہ ایک بڑا زبردست خیال لگتا ہے کہ جو کچھ میں نے یہاں سیکھا وہ میں واپس جاکر اپنے گھر والوں اور دوستوں کو پکا کر کھلائوں"۔

جولائی میں فاطمہ نے دیگر شیفس کے ہمراہ 'فوڈنیٹ ورک ٹی وی' کے شو 'چوپڈ' میں حصہ لیا اور پاکستانی چٹخاروں سے آراستہ مغربی کھانے بنا کر مقابلہ جیتا اور 10 ہزار ڈالر انعام کی حقدار ٹہریں۔

اپنی اس کامیابی کے بارے میں فاطمہ کہتی ہیں، "یہ سب میرے خاندان کی قربانیوں کا نتیجہ ہے جو انہوں نے مجھے گھر سے اتنی دور بھیجنے کے لیے دیں تاکہ میں یہاں کے اعلیٰ ترین تعلیمی ادارے میں پڑھ سکوں۔ اور اب میں نوجوان پاکستانی لڑکیوں کے لیے ایک مثال بننا چاہتی ہوں تاکہ وہ بھی میری طرح اپنے خوابوں کی دنیا تراشیں"۔

'کیفے سینٹرو' کے ماسٹر شیف جان ہوفمن بھی فاطمہ کی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ فاطمہ کو مزید دو، تین سال اپنی شاگردی میں رکھیں گے جس کےبعد انہیں یقین ہے کہ وہ بھی ایک ماسٹر شیف ہوجائیں گی۔

فاطمہ اپنی یہ عملی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستان واپسی کا سوچ رہی ہیں جہاں وہ ایسے باورچی خانے کھولنا چاہتی ہیں جن میں ایک جانب غریب گھرانوں کو صاف ستھرا اور کم قیمت کھانا مل سکے تو دوسری جانب نوجوانوں کو کھانا پکانا سکھا کر روزگار کی نئی راہیں دکھائی جائیں۔