'طنز و مزاح پاکستانی عوام کے دل کے قریب ہے'

انور مقصود کہتے ہیں کہ پاکستان میں سنجیدہ تھیٹر دیکھنے کا رجحان بہت کم ہے - فائل فوٹو

پاکستان میں ٹی وی اور تھیٹر دونوں پلیٹ فارمز پر پیش کیے جانے والے ڈراموں میں طنز و مزاح کا رنگ غالب رہا ہے۔ لیکن تھیٹر سے جڑے معروف لکھاریوں کا کہنا ہے کہ طنز کے یہ تیر اب ویسے 'تیکھے' نہیں رہے جیسے ہوا کرتے تھے۔

معروف صحافی، ڈرامہ نگار عمران اسلم نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ پاکستان کے ڈراموں میں طنز و مزاح کی بطور صنف مقبولیت کی ایک وجہ ہمارا مزاج بھی ہے جس میں بادشاہوں کے زمانے کے مسخروں کے طنزیہ چٹکلے اور شدید سیاسی پابندیوں میں بھی اپنی بات کہہ دینے کا فن دونوں شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ صدیوں پرانی روایت ہے، ایک دن میں پروان نہیں چڑھی۔ طنز سخت اور ترش بات کہنے کا ایک بہترین ذریعہ رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ شہری اب بھی ذہنی جبر کا کسی حد تک شکار ہیں لیکن یہ حالات کچھ مختلف ہیں۔ یہ کچھ عجیب وقت ہے، لکیریں نہیں کھینچی جا سکتیں کہ ہمیں کس کا سامنا ہے۔ اسی ابہام کی وجہ سے لکھنے والا آج یہ نہیں جانتا کہ تیروں کا رخ کس طرف کرنا ہے۔

اجوکا تھیٹر کے ڈائریکٹر اور معروف ہدایت کار شاہد ندیم نے طنز کی مقبولیت کے بارے میں کہا کہ پاکستان نے آمریت کے لمبے ادوار دیکھے ہیں اور اس وقت اپنی بات کہنے کا سب سے بہتر طریقہ یہی تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ طنز و مزاح کی یہ خوبی ہے کہ سنگین سے سنگین مسئلہ بھی خوبصورتی سے پیش کیا جا سکتا ہے اور دیکھنے والا اس سے بے زار بھی نہیں ہوتا۔ چونکہ طنز و مزاح میں کوئی بات کھل کر نہیں کی جاتی اس لیے دیکھنے والا خود ان کرداروں کے خاکے میں اپنی مرضی سے رنگ بھرتا ہےـ ایک ایسا خلا مل جاتا ہے جس سے ناظرین خود کو جوڑ لیتے ہیں۔ پھر چاہے وہ کسی سیاست دان کا خاکہ ہو یا دینی رہنما کا، سب اسے اپنی مرضی کے مطابق دیکھتے ہیں۔

ڈرامہ لکھنے میں طنز و مزاح کا تذکرہ انور مقصود کا نام لیے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ انور مقصود نے وی او اے کو بتایا کہ وہ سنجیدہ تھیٹر لکھنا ضرور چاہتے ہیں مگر پاکستان میں ایسا ڈرامہ دیکھنے کا رجحان بہت کم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ سیاسی طنز لکھتے رہے ہیں جو سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔

انہوں نے کہا کہ ہر ملک میں ہنسنے ہسانے والا ڈرامہ پیش کیا جاتا، جبکہ سنجیدہ ڈرامے کی اپنی جگہ ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان میں تو ڈرامے کا تھیٹر ہی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ تھیٹر کے لیے انہوں نے بہت کم لکھا ہے۔ لیکن وہ تھیٹر کے لیے کچھ سنجیدہ لکھنے کا ارداہ رکھتے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ اگلے سال کے شروع میں ایسا کوئی کھیل تھیٹر میں پیش کیا جائے۔

انور مقصود نے کہا کہ لوگ ہنسنا چاہتے ہیں اور طنز یہ موقع فراہم کرتا ہے۔ البتہ چھوٹے تھیٹرز کی بہت ضرورت ہے جہاں ایک نہیں بلکہ ہر قسم کے کھیل پیش کیے جا سکیں۔

لیکن، کیا سٹایئر صرف لکھنے والے کے لیے ہی اپنی آواز عوام تک پہنچانے کا باعث بنتا ہے یا ان کرداروں کو نبھانے والے بھی خود کو اس کا حصہ سمجھتے ہیں؟

ٹی وی اور تھیٹر سے ثانیہ سعید کا تعلق کافی پرانا ہے وہ کہتی ہیں کہ ایک ڈرامے میں اداکار کے لیے اپنے جوہر دکھانے کے کتنے مواقع ہیں یہ اس بات پر منحصر ہے کہ ڈرامے کی تحریر کیسی ہے۔

ثانیہ سعید کے مطابق، ڈرامہ اداکار کے لیے بھی اہم ہو سکتا ہے اگر اس میں انور مقصود کا لکھا گیا اکبر جیسا کوئی کردار ہو۔

اپنی بات چھپا کر کہہ دینے کا فن ہو یا پھر عام عوام کے چہرے پر مسکراہٹ لانے کی وجہ، لکھنے والے یہی کہتے ہیں کہ طنز و مزاح پاکستانی عوام کے دل کے قریب ہے۔